مختلف سیاسی پارٹیوں کے مائنڈ سیٹ اور مُستقبل کا منظر نامہ
(ذوالفقار ذلفی)
کہتے ہیں جن کی یاداشت اچھی نہ ہو اُنکا مشاہدہ اچھا ہوتا ہے۔ مجھے بھی ایک عرصے سے اس مُشکل کا سامنا ہے۔ میں اکثر جو پڑھتا ہوں وہ بہت جلد بھول جاتا ہوں مگر مُشاہدے کی حس بہتر ہونے کی وجہ سے خاص خاص باتیں میری سوچ کے کسے خانے میں ٹھکانہ کئے رکھتی ہیں۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے پڑھنے کی ایسی لت لگی کہ چھوٹتی ہی نہیں۔ اس لت کی وجہ سے سیاست، فلسفہ، منطق، مذہب، دیو مالیت، تاریخ اور مزاح سے کچھ نہ کچھ واقفیت پیدا ہوئی۔ اس پس منظر میں ہماری سوچ کی آبیاری میں وہ علم بہت اہم کردار ادا کرتا ہے جو ہم نے مختلف ذرائع سے سیکھا ہو۔علم حاصل کر لینا اور علم کا عملی طور پر اظہار کرنا دو الگ الگ قسم کے قضیے ہیں۔
عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ علم کے عملی اظہار کے دوران بہت ہیچ نظر آتے ہیں۔اُن کے رویے میں نرگسیت اور اناپرستی کی ایسی ملاوٹ ہوتی ہے جو اُسے سماج کے وسیع کینوس سے کاٹ کر بالکل چھوٹے سے دائرے میں قید کر دیتی ہے۔ ایسے شخص کی عملی مار سے بچنے کیلئے لوگ عام طور پر کنی کترا کر نکل جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سماجی بیگانگی کا شکار ہو کر مزید شدت پسند اور کسی حد تک اہم ترین اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی لا تعلق ہو جاتا ہے اور اُس کی گفتگو میں گالیاں اُمڈ آتی ہیں۔
اب ایسے لوگ اُس معاشرے میں بہت زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں جہاں عدم مساوات اور نا ہموار معاشی پہلو اور جامد نظریات نمایاں ہوں۔ آپ اگر تاریخی پس منظر میں مختلف اقوام کا رویہ جاتی تجزیہ کریں تو دو تین پہلو مُشترک نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر جامد نظریات کے حامل معاشرے جن کا تعلق کسی بھی مذہبی احکامات کی بنُیاد پر استوار تھا کا اگر آپ جائزہ لیں تو وہاں تشدد پسندی کے رجحانات زیادہ نظر آتے ہیں۔ دیو مالیت کی ابتدا سے جدید الوہیت تک دیوتاوں اور خُداوں کو خوش کرنے کیلئے انسانی جان کی قُربانی کا تصور رہا ہے اور اس تصور کے پیچھے دو قسم کے رجحانات کار فرما رہے ہیں۔ ایک تو خوف کے رجحان پر قابو پانا اور دوسرا طاقت کو کسی ایک نقطے پر مجتمع کرنا۔ اس تناظر میں دو طبقے ہمیشہ سے موجود رہے ایک وہ جو حُکمران کہلاتا ہے اور ایک وہ جو رعایا کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حکمران طبقہ کا گٹھ جوڑ ہمیشہ سے مذہبی پروہتوں، پنڈتوں، پادریوں اور مولویوں سے رہا ہے جس کی ذمہ داری خوف پھیلانا تھی اور یہ گٹھ جوڑ معاشی مفادات اور طاقت کے حصول کیلئے تھا۔ مگر اس گٹھ جوڑ کے خلاف بہت سارے فلاسفروں نے آواز اُٹھائی اور توہمات پر مبنی سماجی اور مذہبی پہلوووں کو چیلنج کیا تو وقت کے حکمرانوں نے کسی کو زہر کا پیالا دے کر مار ڈالا، کسی کو پھانسی پر چڑھا دیا، کسی کو جلا دیا، کسی کے سر پر کتابیں مار مار کر اندھا کر دیا تو کسی کو گھسیٹ گھسیٹ کر اذیت ناک موت دی۔
مرنے والوں نے شکست تسلیم نہیں کی اور مارنے والوں نے اپنا اقتدار بچانے کیلئے کمپرومائز نہیں کیا۔ ایک وقت ایسا آیا جب بہت سارے لوگ پُرانی اقدار اور انسانی بھینٹ پر مبنی قربانی کی فلاسفی سے تنگ آگئے تو انہوں نے حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں کیں تو اس عہد میں حکمرانوں کو نہ چاہتے ہوئے فلاسفروں اور دانشوروں کو اقتدار میں حصہ دینا پڑا جس کی وجہ سے مذہبی نمائندگی کرنے والے طبقے کو چار و ناچار پیچھے ہٹنا پڑا اور اُس طبقے نے عوام کو اپنے تئیں بھڑکانے کی کوششیں بھی کیں اور اس کوشش میں بہت ساری خون ریز جنگیں بھی ہوئیں۔
میں اس کی مزید تفصیل میں نہیں جاتا میں اب سیدھا آتا ہوں پاکستان کے موجودہ منظر نامے میں کہ یہاں کون سا لیڈر کیا کھیل کھیل رہا ہے اور کون سی legacy کو لے کر یہاں پر رول کرنا چاہتا ہے۔ تین بڑی پارٹیوں کی لیڈر شپ اور اُن سے مُنسلک ووٹرز کی نفسیات اور سوچ کا جائزہ لیں تو جو تصویر بنتی ہے وہ کافی مایوس کُن ہے۔میں صرف وہ مشاہدات پیش کر رہا ہوں اور پارٹی کا نام نہیں لکھ رہا وہ جگہ خالی رہیگی مگر مجھے اُمید ہے آپ لوگ اُس جگہ کو مناسب الفاظ سے خود پُر کر لیں گے۔
1سیاسی پارٹی نمبر ون
یہ پارٹی عام طور پر ایسے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے جو
دولت کمانے کیلئے انتہائی کمٹڈ قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی پہلی ترجیح دولت اور طاقت کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھ میں رکھنا ہوتا ہے۔
عام طور پر یہ مذہبی لوگوں سے گٹھ جوڑ بنانے پر یقین رکھنا اور ظاہری وضع قطع سے دوسروں کو ایمپریس کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔
یہ طاقت کے میکانزم کو بہت کنٹرولڈ طریقے سے برتتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اپنے سے کم طاقت ور پر دھونس دھمکی اور تشدد کرنے سے گُریز نہیں کرتے چاہے وہ ان کی اپنی پارٹی کا ہی کیوں نہ ہو۔
عام طور پر ایسے مائنڈ سیٹ کے لوگ طاقتور کے سامنے بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور خطرہ محسوس ہونے پر کمپرومائز کر لیتے ہیں۔
اس قسم کے لوگ اندر اور باہر تضادات سے گھرے ہوتے ہیں۔ یہ اپنی شخصی پیچیدگیوں کی وجہ سے آزاد ہونا بھی چاہیں تو آزاد نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے ایسے لوگ اندر اندر گُھٹن زدہ ہوتے ہیں۔
یہ لوگ بہت ہی ٹیکنیکل قسم کی کرپشن کے بھی ماہر ہوتے ہیں اوپر اوپر سے ایمانداری کا لیبل لگا لیتے ہیں مگر اندر خانے بہت مارا ماری کرتے ہیں۔
اس مُلک میں اس ٹائپ کے لوگ ہمیشہ رولر رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی مُلک ان کے قبضے میں رہیگا
2۔سیاسی پارٹی نمبر دو۔
اس پارٹی سے وابستہ لوگ تھوڑے سے نظریاتی قسم کے ہوتے ہیں جو نظریات کی خاطر کبھی کبھار جانی اور مالی قربانی دینے سے گُریز نہیں کرتے
یہ لوگ سیاسی چالوں کو خوب سمجھنے کے دعوے دار ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ دشمن کی چال کا شکار ہو کر اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں۔
اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت ان میں کم کم ہوتی ہے
اگرچہ اس پارٹی سے وابستہ افراد فلسفیانہ طور پر مذہبی گٹھ جوڑ کو سیاسی فائدے کیلئے مناسب نہیں سمجھتے مگر عملی طور پر یہ اُن طبقات کو شریک اقتدار کر لیتے ہیں
اس پارٹی کے لوگ کلچرل اور سادہ دل کے ہوتے ہیں انکا سیاسی شعور بھی دوسری پارٹیوں کے افراد سے زیادہ ہوتا ہے۔
اس پارٹی کے افراد تھوڑے سے آزاد منش ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ منظم نہیں ہو پاتے ۔
اس پارٹی کے لیڈر کافی امیر ہیں مگر اسکو چاہنے والے زیادہ تر دیہاتوں سے اور غریب لوگ ہوتے ہیں۔
اس پارٹی کے افراد میں مرکزیت کا پہلو زیادہ طاقتور نہیں ہے یہ دوسری پارٹیوں کی نسبت جمہوریت پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
اس پارٹی کے زیادہ تر لوگ نظریاتی سیاست کے حامل ہیں مگر وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ نظریات معروضی حالات کی وجہ سے بدلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس پارٹی سے وابستہ لوگ مایوسی اور بد دلی کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔
آنے والے وقت میں اس پارٹی کو ضرورت کے تحت استعمال کیا جائیگا اور جب اصل حکمرانوں کی ضرورت پوری ہو جائیگی تو پھر سے اسے عوام کو لوٹا دیا جائیگا۔
3۔سیاسی پارٹی نمبر تین۔
عقل سے زیادہ جذبات پر یقین رکھتے ہیں
لچک دار رویے ان کے اندر مفقود نظر آتے ہیں
عقل کل کی فلاسفی ان پر صادق آتی ہے
یہ اپنے آپ کو انقلابی سمجھتے ہیں مگر ان کی سوچ بہت ہی سطحی ہوتی ہے
یہ مذہبی پہلووں کو ذاتی سے زیادہ اجتماعی عملدرای پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ بہت ہی نرگسیت پسند قسم کے لوگ ہوتے ہیں اپنے علاوہ یہ بہت کم لوگوں کو ایماندار، مہذب اور عزت دار سمجھتے ہیں۔
ان کی شخصیت میں 90 ڈگری کے تضادات ہوتے ہیں۔ ہوتے ہیں کواکب کچھ تو نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق
ان کی ظاہری شکل و صورت بہت ماڈرن ہوتی ہے مگر ان کے رویے اور سوچ بہت کنزرویٹو ہوتی ہے
یہ جسے ظُلم سمجھتے ہیں اس کے خلاف آواز بھی اُٹھاتے ہیں۔
اس پارٹی سے وابستہ افراد منظم اور اُمید پرست ہوتے ہیں
یہ مذہبی legacy کو اقتدار کی خاطر بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔
ان افراد کو منطقی طور پر قائل کرنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ اس سوچ پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جو یہ سوچتے ہیں بس وہی ٹھیک ہے۔
مستقبل میں اس پارٹی کو اہل اقتدار طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال کریں گے کیونکہ باغی اور ہٹ دھرمی والی نفسیات کے باعث اصل حکمران اس پارٹی پر زیادہ rely ہرگز نہیں کرنا چاہیں گے۔
اس منظر نامے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کس قسم کا ہے اور ہم بطور پاکستانی اکائی کے کہاں پر کھڑے ہیں۔