یہ فلسفۂِ سائنس سے جو محبت ہے
از، علی شہباز
پڑھنے لکھنے والے پاکستانی نوجوانوں میں سائنس سے زیادہ فلسفۂِ سائنس (فلاسفی آف سائنس) یا تاریخِ سائنس اور سائنس اور اسلام جیسے موضوعات کیوں مقبول ہوتے ہیں؟ آپ کو یُو ٹیوب پر جو کچھ بہت سمجھ دار لوگ ملتے ہیں وہ بھی زیادہ تر ایسی چیزوں پر ہی بولتے نظر آتے ہیں۔
اگر کبھی غور کریں تو یہ بات واضِح ہو جاتی ہے کہ یہ سب سے آسان کام ہے اور مقبول ترین موضوعات ہیں۔ نہ تو ریاضی کی مشقت کرنا پڑتی ہے، جو کہ کبھی کبھار بہت frustrating بھی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی آپ کے دلائل یا اپروچ پر حکم لگا سکتا ہے، جیسا کہ خالص سائنسی عمل میں ہوتا ہے اور نہ ہی آپ کو اس کے لیے زیادہ تحقیق کرنا پڑتی ہے کیوں کہ تاریخ اور فلاسفی آف سائنس کے جدید ترین مقالات اور مباحث سے بھی ان کو دل چسپی نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ جو سائنس کی تاریخ اور اس کے فلسفے پر بات کرتے ہیں انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ان موضوعات پر peer reviewed جریدے کون سے ہیں یا اس میدان کی اہم شخصیات، کتب اور مقالات کیا ہیں۔
در اصل ہمیں بچپن ہی سے صوفیوں، مولویوں اور سوڈُو سائنس دان کی اتنی بھرمار نظر آتی ہے کہ بیس تیس سال کی عمر تک پہنچتے ہم مکمل طور پر علم کے تجزیاتی اور تحقیقی عمل سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ جدید میڈیا اور دیگر سوشل میڈیا پر وقت گزاری نے ویسے ہی ہمارے ذہن بہت مصروف کر دیے ہیں، اس لیے ان سب سے الگ ہو کر گہرا مطالَعہ اور غور و فکر کرنا نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ ہم نیا سوال بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے، تجزیہ و تحقیق تو بہت دور کی بات ہے۔
میرے ایک فزکس کے استاد مرحوم کو بھی اسلام و قرآن سے سائنس نکالنے کا مغالطہ رہتا تھا اور ان کے زیرِ اثر میں نے درجنوں کتابیں اردو و انگریزی میں اس موضوع پر اکٹھی کر رکھی تھیں۔ اور اپنے کلاس فیلوز و دیگر اساتذہ سے اپنے اس مطالَعے کی بنیاد پر بحث کیا کرتا تھا۔ بہ ہرحال، ان کے صاحب زادے فزکس میں ایم ایس سی کرنے کے بعد پرائیویٹ کالج یا اکیڈمی چلا رہے ہیں۔ واٹس ایپ پر اکثر وہ بگ بینگ اور آئن سٹائن اور کوانٹم نظریے کے بارے مجھ سے گفتگو کرتے رہتے تھے۔
میں نے ان کو کافی مرتبہ کہا کہ بھائی ایم فل کریں اور اچھی یونی ورسٹی سے کریں، ساتھ فزکس کی کتابوں کو مع ریاضی پڑھیں تو بہت سے اشکال دور ہو جائیں گے۔
کہتے تھے کہ معاشی مسائل ہیں مزید ڈگری کے لیے وقت نہیں۔ آج کل میں موصوف نے اپنے ایک یوٹیوب چینل کا افتتاح فرمایا ہے اور اس پر صوفیوں کے ایک گروہ کی چھاپ لگا کر پہلا خطبہ ہی یہ دیا کہ سائنس جن معاملات پر خاموش ہے، قرآن نے چودہ سو سال پہلے وہ مسئلے حل کر دیے ہوئے ہیں۔ خاص طور سے بگ بینگ سے پہلے والے مسائل۔
گزشتہ چند ہفتے انھوں نے مجھ سے کئی گھنٹے فون پر بات کی کہ بگ بینگ کیا ہے اور کیسے ہوا۔ میں نے ان کو سٹیون وائنبرگ اور ہاکنگ وغیرہ کی کتب بھی تجویز کی ساتھ انھیں با قاعدہ جنرل ریلیٹوٹی کا کورس لینے کو کہا۔ لیکن آج صبح ہی انھوں نے یہ دھماکا کر دیا۔
پسِ منظر میں اپنے کسی صوفی مرشد کی “دعا” اور “اجازت” بھی لگا دی جو شاید انھیں “روحانی آنکھ” عطا کرنے کا “لارا” لگا چکے ہیں۔
مجھے اپنی جہالت کے دن یاد آ گئے جب میں بھی ایسی حرکتیں کرنا چاہتا تھا۔ افسوس کہ کیسے ہمارے نوجوانوں کو یہ صوفی اور نام نہاد فلسفی ایمان و روحانیت کے نام پر گُم راہ کرتے ہیں اور آٹھ سو سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے کہ تجزیہ و تحقیق پر اپنی زندگی صرف کرنے کی بَہ جائے ان کے بڑوں کے اپنے بنائے جہالت کے بتوں کی مٹی تازہ رکھتے ہیں۔