پاکستانی پختون اور پختون پاکستانی
سعد اللہ جان برق
جب سے صحافت نے ’’فن‘‘ سے ترقی کرکے انڈسٹری اور کالم نگاری نے دانشوری کے عہدے پر ترقی پائی ہے ہم جیسے نرے یا سنگل یا ’’دانش لس‘‘ کالم نگاروں کے لیے بڑی مشکل پیدا ہو گئی ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم معاصر دانشور کالم نگاروں کے کالم +دانش نہ پڑھیں، لیکن مجبوری ہے بعض اوقات کسی کالم کا عنوان ہمیں کھینچ کر مشکل میں ڈال ہی لیتا ہے۔ اب اس عمر میں ہم دانشوری سیکھنے سے تو رہے اس لیے تھوڑی سی محققانہ کوشش کر لیتے ہیں۔ اب یہ جو جناب جمیل مرغز صاحب نے اپنا ایک دانش بھرا کالم ’’پاکستانی پختون‘‘ کے موضوع پر لانچ کیا ہے اس نے بھی ہماری رگ تحقیق پھڑکا دی ہے۔
اصل تو ہم بقول جمیل صاحب اس اصطلاح کے موجد جناب میجر عامر کے فین ہونے کے ناتے تھوڑی سی اش اش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم جمیل صاحب کی طرح میجر صاحب کے ’’ہم دانش‘‘ تو نہیں لیکن ان سے جان پہچان ضرور ہے بلکہ ان کے فین ہیں، اس لیے لازم ہے کہ ہم اس اصطلاح پر زور و شور سے عش عش کریں۔ لیکن درمیان میں اڑچن یہ آئی کہ اصطلاح ہماری سمجھ دانی کے اوپر سے گزر گئی تب ہماری تحقیق پھڑکی اور یہ تجسس ہواکہ آخر ہر ایجاد کی ماں بھی ہوتی ہے۔ جو زیادہ تر ضرورت کے نام سے معروف ہے تو اس ایجاد کی ماں کون ہے؟ اور یہی ہم جاننا چاہتے ہیں کیونکہ محقق ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے۔
اب تحقیق کے تو پھر کئی پہلو نکل آتے ہیں، اس لیے یہ اور بھی ضروری ہے کہ اس ’’پاکستانی پختون‘‘ نامی اصطلاحی ایجاد کی ماں کا پتہ لگایا جائے۔ میجر صاحب یا جمیل صاحب کو تو ہم بلا چوں چرا کیے اس ایجاد کے والد تسلیم کیے لیتے ہیں لیکن ماں یعنی میڈم ضرورت کہیں نظر نہیں آتی۔ آخر پاکستان میں تو اور بھی کئی قومیں بستی ہیں ان کے ساتھ یہ دم چھلہ کیوںنہیں ہے صرف پختونوں ہی کو یہ سرٹیفکیٹ دینے کی ضرورت کیوں پیش آگئی۔ پختون بھی تو ویسے ہی پاکستانی تھے، ہیں اور رہیں گے جیسے دوسری قومیں ہیں جب ان کو پاکستانی ہونے کی سرٹیفیکیٹ لینے یا دینے کی ضرورت نہیں تو صرف پختون کو کیوں؟
اصولی طور پر تو پاکستانی پنجابی‘ پاکستانی سندھی‘ اور پاکستانی بلوچی کے سرٹیفکیٹ بھی ضروری ہیں۔ اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ پختون پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ہیں اس لیے تخصیص کے لیے پاکستانی پختون کی اصطلاح یا سرٹیفیکیٹ ایشو کرنا پڑا۔ تو پھر تو آدھے پنجابی اور آدھے سندھی بھی افغانستان سے زیادہ مخالف ملک بھارت میں بھی ہیں اور بلوچ تو افغانستان، ایران اور مسقط و اومان میں بھی ہیں ان کی تخصیص کے لیے پاکستانیت کا سرٹیفیکیٹ کیوں ایشو نہیں ہوا صرف پختونوں کے لیے خصوصی طور پر یہ ضرورت کیوں پیش آگئی؟
یہی سوال ہماری رگِ تحقیق کو پریشان کیے دے رہا ہے اور ایک بہت بڑا سا ’’کیوں‘‘ ہمارے سامنے دم ہلا رہا ہے۔ کیا پشتونوں کو کوئی نوکری دی جارہی ہے کیونکہ ملازمت کے سلسلے میں اکثرتھانے میں اس قسم کا تصدیق نامہ آتا ہے کہ مسمی پختون ولد پختون کو نیک چال چلن کی تصدیق کرکے رپورٹ عرض ہے۔ اس ایجاد کی ماں کو تلاش کرتے ہوئے اچانک ہماری رگ تحقیق میں پھڑکن ہوئی کہ کہیں اس ایجاد کی ماں ایک غیر موجود نادیدہ اور ناشنیدہ اصطلاح ’’پختون پاکستانی‘‘ تو نہیں اور یہ بالکل فطری سی ماں لگتی بھی ہے۔ اگر ’’پاکستانی پختون‘‘ کی اصطلاح ہو سکتی ہے تو پھر پختون پاکستانی کی اصطلاح بھی کہیں نہ کہیں ہونی چاہیے۔
مطلب یہ کہ ’’پاکستانی پختون‘‘ کی اصطلاح سے یہ تصدیق تو ہوگئی کہ پاکستان میں رہنے والے پختون پاکستانی ہیں لیکن کیا یہ بھی مان لیا گیا ہے کہ ’’پختون پاکستانی‘‘ ہیں اور پھر اس کے ساتھ ہی مزید وضاحت یہ کہ پختون تو پاکستانی ہیں لیکن کیا فریق دوم بھی اس سے متفق پختون پاکستانی ہیں اور اگر ہیں تو پھر پاکستانی ہونے کا ثبوت بھی پیش کرنا پڑے گا۔ ایک اور طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں پختونوں نے تو پاکستان کو مان لیا ہے بلکہ مان چکے تھے اور مان رہے ہیں لیکن کیا پاکستان نے بھی پختونوں کو مانا ہے یا مانا تھا یا مانتا ہے؟
اور یہی ان سب اولادوں کی ماں ہے۔ عام طور پر پاکستانی لوگ بھارت کے بارے میں کہا کرتے ہیں کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے نہیں مانا اور ایسی بات کو ہم بھی دہرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان نے بھی پختونوں کو دل سے مانا ہے یا یوں کہیے کہ اولاد نے تو باپ کو تسلیم کیا ہوا ہے لیکن کیا باپ بھی اسے اپنی اولاد تسلیم کرتا ہے۔
اور اس اصطلاح ’’پاکستانی پختون‘‘ کی ماں ہماری تحقیق کے مطابق یہی ’’پختون پاکستان‘‘ ہو سکتی ہے کیونکہ گزشتہ ستر سال سے دیکھا تو یہی جا رہا ہے کہ پختونوں کو پاکستان نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اب جب وہ پاکستان میں کہیں دکھائی دیتے ہیں تو ان کو پاکستانی کے بجائے غیر ملکی سمجھا جاتا ہے اور اس کی تصدیق ہمہ وقت ہوتی بھی رہتی ہے کہ جب بھی موقع ملتا ہے پختونوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ تم مشکوک شہری ہو ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا اس کی بھر پور تصدیق ہو چکی ہے بلکہ اگر ’’جیلوں‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو تصدیق اور بھی واضح ہو جائے گی اس لیے ہماری استدعا جناب جمیل اور میجر صاحب سے یہ ہے کہ آپ نے پختونوں کو تو پاکستانی بنا دیا خوشی ہوئی اب لگے ہاتھوں پاکستان سے بھی پختونوں کو تسلیم کروا لیجیے۔
بشکریہ: ایکسپریس اردو