مزارع کی نفسیات
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
برصغیر کا مزاج جاگیردارانہ ہے جہاں مزارعوں کو جاگیرداروں کے مظالم کو سہنا معاشرت کا حصہ ہوتا ہے۔ ظلم کرنا جاگیردار کا حق بلکہ اس کی سیاسی پالیسی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی دھاک بیٹھی رہے اور کوئی اس کے آگے سر نہ اٹھائے۔ اس سے بڑھ کر وہ مزارعوں کے روٹی کپڑا اور مکان کا مالک ہونے اور باہر کے لوگوں سے ان کے تحفظ اور جھگڑے چکانے کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے اس لیے وہ ان کانا خدا بن جاتا ہے۔
جاگیردار کے ان مظالم پر احتجاج صرف منت و فریاد کی صورت میں ہوتو ایک حد تک جاگیر دار اس کا تحمل کرتا ہے، احتجاج ذرا بلند آہنگ ہو تو فوراً مظلوموں کی گردن ناپی جاتی ہے۔ جاگیردارانہ ماحول کا علم حاصل کرنا ہو تو پنجاب اور سندھ کے دیہی علاقوں کی معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ بادشاہت اسی نظام کا ایک بڑا اظہار تھا۔
جاگیرداروں کی یہ آمرانہ اور جابرانہ نفسیات ہمارے سماج کا مجموعی مزاج ہے۔ یہ مزاج سماج میں سرایت کر گیا ہے۔ چنانچہ جس جس فرد کو جتنا اختیار اور اقتدار حاصل ہوتا ہے وہ اتنا بڑا آمر و جابر بنتا چلا جاتا ہے۔
جمہوریت کے ذریعے سے حکمران کے انتخاب کا حق عوامی کو منتقل ہونے سے اصولی طور پر ایک بہت بڑی تبدیلی آئی۔ جہاں کبھی عوام کو خود پر مسلط شدہ حاکم کی خوش نودی کے لیے اس کے سامنے سرنگوں رہنا پڑتا تھا، جمہویت میں اسی حاکم کا ہاتھ، عوام کے سامنے اس کے ووٹ کے حصول کے لیے دست سوالی بن گیا۔ پھر اصولی طور پر ان حاکموں کا حکومت میں برقرار رہنا بھی عوام کے فیصلہ پر منحصر ہوگیا۔
جمہوریت سے عوام کی خوداری اور عزت نفس کا سفر شروع ہوا۔ عوام کو لیکن صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی کے اس ذائقے سے آشنا ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ مزارع کی نفسیات بدلنے میں کم از کم ایک نسل کا وقت درکار ہے۔ جمہوریت کا سفر جن ممالک میں ہم سے پہلے شروع ہوا، وہاں عامی اور حاکم کے درمیان سماجی اور قانونی اعتبار سے کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ ہمارے ہاں ابھی یہ سفر جاری ہے جو بار بار کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے طویل ہوتا جاتا ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شعور دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ پروان چڑھا ہے، لیکن اس بڑی وجہ لیکن نہیں بلکہ عصبیت کی کمی ہے جو کسی ایک جماعت سے شہریوں کو دیہاتیوں کی نسبت کم اور مُنقسم ہوتی ہے۔ یہی سفر جاری رہے تودھیرے دھیرے عوام کا انتخاب عصبیت سے میرٹ کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے اور یہی جاگیردارانہ مزاج کے مکمل خاتمے کا سبب بنتا ہے۔
جب تک یہ منزل حاصل نہیں ہوتی جاگیردرانہ مزاج، سماج میں پائے جانے والے مزارع کے مزاج سے مل کر جمہوریت میں بھی آمریت اور جابرانہ حکمرانی کا لطف لینے میں ایک حد تک کامیاب رہتا ہے۔ جاگیر درانہ مزاج صرف جاگیرداروں میں نہیں پایا جاتا، یہ مزاج سرایت کرتا ہےاور ہر شخص مقدور بھر، اور اقتدار بھر ایک جاگیردار ہوتا ہے۔ ہمارا سرمایہ دار بھی مزاج کے لحاظ سے جاگیردار ہے اور ہر وہ سیاسی اور مذھبی گروہ بھی جس کا اپنا حلقہ اثر ہے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: پاکستان کا فکری منظرنامہ : چند معروضات
اسٹیبلشمنٹ مڈل کلاسیوں کا ایک متحد گروہ ہے، گویا مزارعوں کا گروہ ہے، لیکن طاقت اور اختیار میں وہ آج سب پر فائق ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے مزاج میں وہی آمریت اور جبر رکھتا ہے جو جاگیردارانہ مزاج کا خاصا ہے۔ عوام کے تقریباً تمام طبقات مزارعوں کی نفسیات کے حامل نظر آتے ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کا فرق بھی نہیں ملے گا۔ مزارع کی نفسیات کا مسئلہ ہے کہ وہ ایک آمر و جابر جاگیردار کے بغیر خود کو ادھورا بلکہ غیر محفوظ محسوس کرتا ہے۔ ایسے ہی جیسے عدم تحفظ کا شکار ایک خاتون جسے سخت گیر ہی سہی مگر ایک محاٖفظ مرد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت کے آنے کے بعد بس اتنا ہوا ہے کہ ان بظاہر آزاد مزارعوں کواپنا اپنا جاگیردار چُننے کا اختیار مل گیا ہے۔
اپنا جاگیردار چنتے ہی وہ اس کے ساتھ وہی مزارعوں والی عادات وابستہ کر لیتے ہیں۔ ان کے مظالم سے اول تو صرف نظر کرتے ہیں، اور اگر احتجاج کرنا بھی ہو تو صر ف منت و فریاد تک کے قائل ہیں۔ بلند آہنگ احتجاج کو بغاوت سمجھتے ہیں۔ فرد کی آزادی، فرد کی اہمیت، فرد کی عزت نفس یہ سب اسباق ابھی پختہ نہیں ہوئے، ابھی اجتماعی سالمیت کے نام پر فرد کی قربانی اور اس پر ہونے والے ظلم کو اسی طرح برداشت کرنے کا کہا جاتا ہے جیسے ایک ظالم اور سخت گیر شوہر پر منحصر مظلوم اور بے آسرا خاتون کو گھر بچانے کے لیے صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔
جمہوریت کا تسلسل اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فرد کو مزارع کی نفسیات سے بالآخر آزادی دلا دیتی ہے۔ جمہوری جاگیردار بہرحال اسی آزادی کے سفر کے قائد ہیں۔ غیر جمہوری جاگیرداروں کو البتہ یہ گوارا نہیں۔ اسی لیے وہ بار بار اس سفر کو معطل کرتے رہتے ہیں۔
آزاد ذہن رکھنے والے اس ساری صورت حال میں بس یہی کہہ پاتے ہیں کہ
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.