پاکستانی معاشرے کے کرب کا دستاویزی بیانیہ
تبصرۂِ کتاب از، غلام حسین ساجد
“ڈئیوس علی اور دِیا” نعیم بیگ کا پہلا اردو ناول ہے (افسوس میں ڈاکٹر احسن فاروقی کے تتّبع میں”پہلی اردو ناول” لکھنے سے معذور ہوں،) جسے میں نام کی نامانوسیت کے باعث چھ ماہ تک پڑھنے سے گریزاں رہا کہ مجھے اس پر کسی لسانی تھیوری کے اطلاق کا شبہ تھا اور یہ گمان بھی کہ مصنّف نے جدید ترین ادبی اسالیب کو آزما کر اسے پڑھنے کے لیے مشکل اور معنوی سطح پر گنجلک بنا رکھا ہو گا۔
مگر کل جب جی کڑا کر کے پڑھنا شروع کیا تو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ یہ ناول تو سیدھے بیانیے کا ایک نہایت دل کش رواں اظہاریہ ہے اور پاکستانی سماجی اور سیاسی سفر کو ایک گہرے سماجی شعور اور حقیقت پسندانہ خرد مندانہ روّیے کے ساتھ منقّش کرتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار اور ماحول جس عہد سے متعلق ہیں۔
اتفاق سے یہ وہی زمانہ ہے جب میں نے بھی اس شہر میں قدم رکھّا تھا اور اس سارے فکری اور سماجی عمل کا حصّہ بنا تھا۔ اگرچہ مصنّف نے کہیں اشارہ دیا ہے نہ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ اس ناول کا ان کی ذاتی زندگی سے کوئی جذباتی رشتہ ہے مگر ناول کی کہانی، واقعات کی حقّانیت، مباحث کی حقائق سے بے ریا وابستگی اور اس دور کے فکری اور سیاسی منہاج پر ایسی کڑی گرفت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصنّف اس سارے عمل سے براہِ راست وابستہ رہا ہے اور ہر تجربے سے پیر کر نکلا ہے۔ اُس غوّاص کی طرح جو دریا کی ہر گیرائی سے آگاہ ہو اور اسے اب غیر کی نگاہ سے جانچنے کی سعی کر رہا ہو۔
یہ ناول ستّر کی دھائی سے نوے کی دھائی تک کے پاکستانی معاشرے کے کرب کا دستاویزی بیانیہ ہے جو ایک وسیع عالمی فضا میں آغاز ہو کر ایک کردار کی روح تک محدود ہو جاتا ہے۔ جسے اشرافیہ سے متعلق ہونے کے باوجود اُس کے ہونے اور سوچتے رہنے کا ڈنڈ بھرنا ہی پڑتا ہے۔ اس عمل میں وہ اپنی محبّت کو بھی کھوتا ہے اور اپنے پیاروں کو بھی اور اس طرح ہم اس عِفریت کی جھلک دیکھتے ہیں جو ہمارے زوال کی بنیاد ہےاور جس کے جبڑوں میں ہمارے فردا کی ادھ کچلی لاش ہے۔
نعیم بیگ نے کمال ہنرمندی سے محبت، سیاست، تاریخ اور فکری رویوّں کو ایک ایسی دل فریب لڑی میں پرو دیا ہےکہ ناول کے گنجلک فلسفیانہ مباحث بھی شعوری ارتقا کی ایک مانوس کڑی لگتے ہیں اور مکمّل ناول ایک باغ کی طرح لہلہاتا اور کھلتا محسوس ہوتا ہے۔ کردار حقیقی اور جاندار ہیں۔ اسلوب میں قاری کو رجھانے کی طاقت اور کشش ہے اور قصّے میں ایک تا دیر باقی رہ جانے والی تاثیر۔
وہ لوگ جو وطنِ عزیز کے زوال کے اسباب کے جاننے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اس ناول کوضرور پڑھیں کہ ارادی یا غیر ارادی طور پر یہ بیس برس کےایک نہایت اہم دور کا دستاویزی حوالہ بن گیا ہے اور اس میں بصیرت کا پہلو بہت توانا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.