(معصوم رضوی)
ایک طرف مذھبی حلقے ہیں تو دوسری جانب لبرل روشن خیال، معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو پہلے ہی تھا اب خوفناک نظریاتی تقسیم سے دوچار نظر آتا ہے۔ دال میں بھی نمک تیز ہو تو ایک اسے یہود و ہنود کی سازش قرار دیتا ہے تو دوسرا طالبان ذھنیت کا شاخسانہ، اس دھواں دھار جنگ میں سادہ اورعامی پاکستانی مسلمان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے، جبکہ یہی خاموش اکثریت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس سماجی جنگ میں گردوغبار کا ایسا طوفان اٹھا ہے کہ سچ کہیں کھو گیا۔ حقائق، عقل اور منطق شرمندگی سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور معاشرہ نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہے
دونوں فریق ہر معاملے کو اپنے نظریات کے رنگ میں ڈھالنے سے نہیں چوکتے۔ ترکی کا ناکام فوجی انقلاب ہو یا قندیل بلوچ کا قتل، نواز شریف کا بیرون ملک علاج یا عبدالستار ایدھی کی شخصیت، اشتہارات، مصنوعات، جدید ٹیکنالوجی، طب، تعلیم، حتیٰ کہ اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا بھی نظریاتی جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔ خدا کے فرائض بھی بے دھڑک انجام دیے جا رہے ہیں، شہید ہوا یا مارا گیا، کون جنت جا رہا ہے، کس پر جہنم کے دروازے کھولے جا رہے ہیں، عذاب اور ثواب سمیت بیشتر فیصلے زمین پر ہو رہے ہیں۔ کوئی پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔ اپنی تشریحات عوام پر مسلط کرنے کی جنگ کو جہاد کا درجہ حاصل ہے
اس میدان میں سوشل میڈیا کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں، میں بھی کئی بار فرشتہ صفت جوڑ توڑ کا شکار بن چکا ہوں۔ واشنگٹن کی ایک شاندار تقریب میں مائیکل جیکسن کو عربی لحن کیساتھ نعت پڑھتے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ سابق صدر بل کلنٹن اور ان کی اہلیہ ہلیری بھی محظوظ ہو رہے تھے، تلاش کیا تو پتہ چلا کہ گانا تو انگریزی میں ہی تھا کسی راسخ العقیدہ نیک نیت نے ڈبنگ کا کمال دکھا کر بے تحاشا لائکس اور جذباتی تبصروں کا اثاثہ جمع کر لیا۔ کہیں معجزات ہو رہے ہیں تو کہیں غیر اخلاقی حرکات کو صحت مندانہ روش قرار دیا جا رہا ہے۔ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت آپ بھی ایسے تجربات سے بارہا گزرے ہونگے۔ نتیجہ یہ ہے کہ فرقہ واریت، علاقائی تعصب، طبقاتی فرق اور تیزی سے پھیلتی جہالت سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے
ترکی کے ناکام فوجی انقلاب کے بعد آج کل طیب رجب اردوان توجہ کا مرکز ہیں۔ یقینی طور پر ترکی ایک تاریخ سازموڑ سے گزرا ہے، ایک طرف امت مسلمہ ایسا بطل جلیل قرار دیا جا رہا ہے جس نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا ہے۔ ترکی کی معشیت کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچایا، آئی ایم ایف اور کرپشن سے جان چھڑائی، تو دوسری جانب امریکی ایجنڈے پر شام حکومت کو کمزور کرنے، داعش کی سرپرستی اور تیل کی خرید، ہزار کمروں پر وسیع و عریض محل، بیٹوں پر کرپشن کے الزامات، میڈیا پر پابندی، اپوزیشن رہنمائوں کیساتھ آمرانہ سلوک بھی منظر کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ ناکام انقلاب کا اسکرپٹ بھی ترک صدر سے جوڑا جا رہا ہے، اسی طرح لندن میں وزیر اعظم نواز شریف کے علاج پر سوشل میڈیا تو چھوڑیں ٹی وی چینلز اور اخبارات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کہیں دل کا سنگین ترین آپریشن قرار دیا جا رہا تھا تو کہیں ہیئر ٹریٹمنٹ، کوئی سینے کے بالوں میں آپریشن کے نشانات ڈھونڈھ رہا تھا تو کوئی چہل قدمی کے قدم گن رہا تھا، ماڈل گرل قندیل بلوچ کو بھی کسی نے کالا دھبہ قرار دیا گیا تو کہیں خواتین کے لئے آواز اٹھانے والی پر عزم شخصیت، بعض دل جلوں نے تو قبر سے سانپ بھی نکال دیئے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ قندیل بلوچ خاندان کیلئے بڑا مالی سہارا تھی۔ وہ تو ایک عرصے سے یہی کچھ کر رہی تھی، بھائی کی غیرت اچانک کیوں جاگی، رہی بات ایدھی صاحب کی، تو موت کے ساتھ اس عظیم انسان کے خلاف بھی زہر فشانی کی گئی، حتیٰ بعض علما کے مخالفانہ بیانات بھی سامنے آئے۔ ان واہیات الزامات پر بات کرنا کرنا بھی ایدھی صاحب کی توہین ہے۔ شاید تمام مکاتب فکر میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جو حالات و واقعات کو اپنی عینک سے دیکھ کر عوام پر نافذ کر رہے ہیں، کہیں کہیں تو منظر نہیں بلکہ پورا منظر نامہ تک بدلنے کو کارخیراور مفاد عامہ کا درجہ حاصل ہے۔ صورتحال اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ عام آدمی کیلئے سچ اور حقیقت جاننا ناممکن بنتا جا رہا ہے
قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں علم عمرانیات کے بانی اور فلسفی ابن خلدون نے کیا خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے جب کسی جماعت میں زندگی اور کائنات کے حقائق سے فائدہ اٹھانے کا جذبہ باقی نہ رہے تو زوال شروع ہو جاتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں مسلمانوں میں تحقیق اور انکشاف کی بجائے نقالی کا دور شروع ہوا جس کا نتیجہ پستی کی صورت میں ظاہر ہوا اور زمانے کے ساتھ پختہ ہوتا چلا گیا۔ اب ابن خلدون کے اس تجزیے میں ہزار سال مزید جوڑ لیں مگر پاکستان کی صورتحال میں ہزار نہیں بلکہ ہزاروں سال جوڑنے پڑیں گے۔ ہر زندہ معاشرہ نئی جہتوں اور نظریات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی باعث ترقی کی زینہ طے کرتا ہے۔ ماہرعمرانیات ہربرٹ اسپنسر کہتا ہے انسان آنکھوں سے موجودات کو تو دیکھ سکتا ہے مگر تعلیم کے بغیر ان کی حقیقت نہیں جان سکتا۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے، دیکھتے ہیں جانتے نہیں، ایسے میں بے بنیاد نظریات کا پرچار کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ معاشرے میں نہ صرف نظریاتی خلیج خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے بلکہ معاشی لحاظ سے بھی تقسیم اتنی ہی اتنی ہی گہری نظر آتی ہے۔ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ نظریاتی تقسیم کا پھل جہالت ہے تو معاشی تقسیم کا نتیجہ غربت۔ اگر جہالت اور غربت ساتھ مل جائیں تو سماج زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
اب کچھ بات کی جائے خاموش اکثریت کے بارے میں، تصور کیا جاتا ہے کہ خاموش اکثریت بے اثر اور بیکار محض ہے یہ اتنا بھی درست نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ خاموش اکثریت سڑکوں پر نہیں آتی، وحشت اور بربریت کا مظاہرہ نہیں کرتی مگر موثر رد عمل دینا بخوبی جانتی ہے۔ سب کو پہچانتی ہے۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیں ملک میں کب سے اور کتنا مذہبی غلبہ پایا جاتا ہے۔ مگر کیا انتخابی نتائج مختلف نہیں ہوتے، تمام تر کوششوں کے باوجود مذہبی جماعتیں بمشکل چند نشستیں جیت پاتی ہیں، اس کی وجہ صرف اور صرف خاموش اکثریت ہے کیونکہ حکومت اصل میں انہی ووٹوں سے بنتی ہے۔
تابناک ماضی اور روشن مستقل کے درمیان جنگ میں حال بے حال ہو چکا ہے، خدارا ہم گناہ گاروں کو بھی جینے دیں، ایک رجز و حکایات سنا کر ہزار سال پیچھے لے جانا چاہتا تو تو دوسرا ہزار سال آگے مادر پدر آزادی کے سپنے دکھاتا ہے، ٕمانیں یا نہ مانیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم حال میں جی رہے ہیں، نہ صرف ماضی سے بخوبی واقف ہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہیں مگر آخرت سے غافل بھی نہیں، ہمیں اپنی زندگی جینے دیں، پاکستان کو پاکستان رہنے دیں اسی میں ہماری بقا ہے، اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں؟
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری