کیا سٹریٹ چلڈرن کا زندگی پر کوئی حق نہیں؟
از، حفصہ جاوید، جامعہ کراچی
سٹریٹ چلڈرن ہوتے کون ہیں؟
پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں گھومتے لا وارث بچوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز پاکستان پر شائع شدہ ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں 2019 میں ان بچوں کی تعداد ۲۱ لاکھ ہو چکی تھی۔** یہ کسی بھی معاشرے کا کم زور ترین طبقہ ہوتے ہیں۔
آج کل پوری دنیا میں کرونا کی وبا نے بہت سارے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ جن میں سے ایک معاشی مسئلہ ہے۔ اس نے سب سے زیادہ غریب طبقے پر اثر ڈالا ہے۔ ان کے پاس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
مالی حالات سے تنگ آ کر والدین اپنے بچوں کو کمانے کے لیے گھر سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ وہ کچرا بیچ کر، جوتے پالش کر کے، سوکھی روٹی جمع کر کے، چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر یا اسی طرح کے دوسرے کام کر کے پیسے کماتے ہیں۔
تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان کو حلال اور حرام کی کمائی کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ انھیں بس پیسے سے غرض ہوتی ہے چاہے وہ کچھ چوری کر کے ہی حاصل ہو۔
وہ معصوم بچے بس اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔ ایسے بچے اکثر سگنلز پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچوں کے پاس تو نا رہنے کے لیے گھر ہوتا ہے نا گھر والے۔ وہ بے چارے سڑک پر رہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
ایسے بچوں کے لیے ہر دن ایک نئی جنگ ہوتی ہے۔ یہ بچے عوامی پارک، ریلوے سٹیشن، بس اڈے اور فٹ پاتھ وغیرہ پر اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
سٹریٹ چلڈرن زندگی کس طرح گزارتے ہیں؟
یہ بچے دن بھر کماتے ہیں اور رات میں تھک کر سو جاتے ہیں۔ اکثر ہمیں فٹ پاتھ پر یا کسے بنچ پر سوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ نیند تو کانٹوں پر بھی آ جاتی ہے۔ دن میں وہ مختلف کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ سگنلز پر گاڑیاں صاف کر رہے ہوتے ہیں، بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، جوتے پالش کرتے ہیں، چھوٹی موٹی چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں، کچرا چنتے ہیں یا اس طرح کے اور دوسرے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
ان کے لیے روز ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ اکثر بچے دکانوں سے کھانا چرا کر کھاتے ہیں اسی وجہ سے دکان دار انھیں اپنی دکان سے دھتکار کر بھگا دیتے ہیں۔ ان کا دھیان رکھنے والا، ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
سٹریٹ چلڈرن آخر اس طرح کی زندگی کیوں گزارتے ہیں؟
ان میں سے کچھ بچے اپنے والدین کھو چکے ہوتے ہیں اور خاندان والے ان کا حق ادا کرنے کے بَجائے انھیں زندگی کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
کچھ بچے اپنے گھر والوں سے بچھڑ جاتے ہیں اور گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں۔ کچھ بچے غصے میں آ کر، اپنے اوپر ہونے والے تشدد یا گھر کے مسائل سے تنگ آ کر گھر چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض بچوں کے والدین کسے حادثے کی، یا قدرتی آفتوں کی نظر ہو جاتے ہیں اور وہ بے چارے سڑکوں کو اپنی دنیا بنا لیتے ہیں۔
کیا ان کے کوئی حقوق نہیں؟ کیا ان کا خوشیوں پر کوئی اختیار نہیں؟
سٹریٹ چلڈرن کا بھی زندگی کی خوشیوں پر اتنا ہی اختیار ہے جتنا کہ عام بچوں کا ہے۔ تعلیم، صحت اور کھانا ان کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک عام بچے کے لیے ہے۔ بعض اوقات تو ان کے پاس کھانا بھی نہیں ہوتا، کیوں کہ ان کے پاس وسائل ہی نہیں ہوتے ہیں۔
پیٹ بھرنے کے لیے یہ لوگ کچھ کھا لیتے ہیں چاہے وہ شے انھیں کچرے سے ہی ملیں، جس کی وجہ سے وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔
غذائیت سے بھر پُور کھانوں پر ان کا بھی حق ہے۔ وہ اپنی صحت سے سخت سمجھوتا کرتے ہیں۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس کوئی جاب نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کا مستقبل بھی ان کے حال جیسا ہوتا ہے۔
بڑے ہو کر تو وہ بڑے مجرم بھی بن سکتے ہیں۔ ان بچوں کو اکثر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سٹریٹ چلڈرن میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ لڑکیوں کو ان کو وحشی درندوں کو بیچ دیا جاتا ہے۔
کچھ بچوں کو بھکاری مافیا اپنے گروہ میں شامل کر لیتے ہیں۔ یہ بے چارے بچے بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوتے ہیں؛ نا کھانا ہوتا ہے، نہ ہی رہنے کو گھر اور جو کپڑے پہنے ہوتے ہیں اس کے علاوہ کپڑے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ کافی عرصے تک وہی کپڑے پہنے رہتے ہیں جب تک کوئی اور انھیں کپڑے نہ دے دے۔
سٹریٹ چلڈرن کے لیے کیا ہو رہا ہے؟ اور ہم بَہ طورِ شہری کیا کر سکتے ہیں؟
حکومتی سطح پر تو اب تک کوئی خاطر خواہ یا کافی کام نہیں کیا گیا ہے۔ احساس پروگرام میں بھی ان کے لیے کوئی خصوصی اقدام نہیں لیا گیا۔ یہ کسی بھی معاشرے میں انسانیت کا قتل ہے اور سراسر حکومتی اداروں کی نا کامی ہے۔ اسی لیے انھیں معاشرے کا سب سے زیادہ نظرانداز کیا ہوا طبقہ کہا جاتا ہے۔
جن لوگوں میں انسانیت کا جذبہ زندہ ہوتا ہے وہ لوگ اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کھانا کھلا دیتے ہیں، کپڑے جوتے دلوا دیتے ہیں کچھ پیسے دے دیتے ہیں یا اس طرح کے دوسرے اچھے کام کر کے ان کی طرف اپنا فرض پورا کرتے ہیں۔
غیر سرکاری اداروں نے ان بچوں کے لیے بہت سے فلاحی کام کیے ہیں۔ ان کے رہنے کا بندوبست کیا ہوا ہے جہاں ان کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔ ان اداروں میں بہت سارے لوگ پابندی کے ساتھ عطیات دیتے ہیں۔ بَہ حیثیت معاشرہ، بَہ طورِ انسان اور انسانیت ہمارا بھی کچھ فرض ان کے طرف واجب الادا ہے۔
پڑھے لکھے لوگ ان کو پڑھا سکتے ہیں تا کہ ان میں تعلیم عام ہو اور وہ معاشرے کے کام آ سکیں۔ اس سے پڑھانے والے بھی صدقۂِ جاریہ کے ثواب کے حق دار ہوں گے۔
نجی اسکولوں میں شام کے وقت ان بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے جہاں اساتذہ فی سبیل اللہ پڑھائیں یا ان اسکولوں میں صبح پڑھنے والے بچے، یا جو بھی پڑھانا چاہے پڑھا سکتا ہے۔
سٹریٹ چلڈرن کو اپنے گھروں میں چھوٹے موٹے کام کرنے کے لیے بھی رکھا جا سکتا ہے۔ یہ البتہ ایک مشکل فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ یہ بچے سڑکوں پر رہتے ہیں تو ان پر سخت نظر رکھنی ہو گی اور ان کی تربیت بھی کرنی ہوگی۔
لیکن اس سے فریقین کو آسانی ہو سکتی ہے۔ بچوں کو ایک مناسب کام مل جائے گا اور رکھنے والوں کو مدد مل جائے گی۔ متعلقہ حکومتی اداروں کو بھی زیادہ فعال ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔