پاکستانی مظلوموں کے اتحاد کی الجبرا مساوات
از، یاسر چٹھہ
لبرل، سیکیولر اور لیفٹ کے وہ دوست جنھوں نے شیعہ کافر کی صدائیں سن کر مُنھ دوسری طرف پھیر لیا ہے، آپ کو یہ خاموشی مبارک۔
بس اتنی سی گزارش ہے کہ منہ دوسری طرف پھیرنے سے پہلے “شیعہ کافر” کی صدائیں دینے والوں کے چہرے یاد رکھ لیں، تا کہ یہی چہرے کل کو جب مسیحیوں، ہندووں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف مظالم کا دفاع کرنے نکلیں تو آپ کو ان کی مذمت کرنے میں آسانی ہو۔
ان کو غور سے دیکھ لیں، کیوں کہ یہی لوگ کل عورت مارچ کے خلاف بھی زہر اگلیں گے اور پاکستان میں منظم عورت دشمنی کا پرچار بھی کریں گے۔ اس لیے ابھی سے انھیں اپنی یاد داشتوں میں محفوظ کر لیں۔
یہ وہ چہرے ہیں جنھیں پاکستان کا ٹھیکے دار بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ ہر وقت اس ریاست کو اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
کل جب بلوچوں، سندھیوں اور دیگر قومیتوں کے حقوق کا مسئلہ اٹھے گا تو یہی لوگ ریاست کی زبان بولیں گے۔
ان کو مت بھولیے گا۔
یاد رکھیے ریاست کو جب جب اپنی بھیانک شکل پر خوش نما غلاف چڑھانا ہو گا یہی لوگ کام آئیں گے۔
تب آپ کو ان کی مذمت کرتے ہوئے آسانی رہے اس لیے ان لوگوں کو یاد رکھیں۔
شیعوں کی تکفیر پر خاموش رہیں۔ آپ سے کچھ گِلہ نہیں ہے۔
از، آعمش حسن عسکری
………………
آعمش حسن عسکری کا مشاہدہ، جذبات کے جس صدق پر کھڑا ہے، اس کا بیان درست بھی ہے، پر
… with a pinch of salt!
معاشرے کی وہ آوازیں جو ان جیسے معاملات پر بات کرتی ہیں، وہ news cycles کے جُھرمٹ میں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کتنا کچھ ہے جو اس ہفتے عشرے میں high pitch پر ہے۔ ہم میں سے چند ایک main stream میڈیا کی agenda setting کے جھکڑ میں نسبتاً کم آتے ہیں۔
لیکن اس کے با وُجود سوشل میڈیا کے algorithms بَہ ہر حال جس coding کی سائنس پر چلتے ہیں وہ reasonable آوازوں کے لیے اس قدر دوستانہ نہیں ہیں جس قدر بلند آہنگ cacophony نواز حلقوں کے۔
اس نیوز سائیکل کے جھکڑ میں بہت کچھ نظر انداز ہو رہا ہے، اور ہوتا ہے، ہوتا رہنے کا خدشہ ہے۔ بہت کچھ بحث سے، احتجاج سے اچھی قسمت یا کنٹرول سے، چین کی بانسری بجانے کے لمحے پا کر ایک طرف ہو گیا۔ ایک مثال: رسیدیں دینے کے لیے صَرف ہونے والا کاغذ بچ گیا۔
ایک طرف سول سوسائٹی کا بزنس ماڈل اور اس بزنس ماڈل کی corollary کے طور پر کس کس اور جس جس بحث کو انھوں نے سماجی کلام و ترویج کے لیے اٹھانا ہے وہ محدود بھی ہے، اور اس کو بہت کم معاملات میں سماجی جُڑت بھی میسر آ پاتی ہے۔
This is a complex and chaotic series into series case, which might be plotted, presented and understood mathematically perhaps, but that can’t be explained verbally without any cruel and irresponsible, apathetic reductionisms.
But it can very little be seen as a hand in glove case.
جو معاملات سول سوسائٹی موضوعِ بحث بناتی ہے، انھیں مقامی کافر، نیم کافر، بدعتی، رافضی، ناصبی، مؤحد، اعتدالیے، دو قومیے، قومی سلامتیے وغیرہ اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔
یہ چکرا دینے والے مسائل میں ترجیحات کے انتخاب کا چکرا دینے والا کوئی spinner سا ہے۔
کچھ خیر کا کرنا بھی چاہو، تو شر کے شور ہا شور اور شوریدگی چومکھے on assault mode میں ہیں۔
نتیجہ!
تو پھر معاملہ کچھ یوں ہے:
حیراں ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
میں پہلے ہی کسی chaos کی کیفیت کے بیان کی کوشش میں کافی chaotic سطریں لکھ چکا ہوں، پر پھر بھی عرض کروں گا کہ ہمارے یہاں کا ہر مظلومی لمحے میں گر چکا فرد اور گروہ بھی اپنی طاقت اور ظلمی وقتوں میں کسی darkling ایسی کیفیت میں ہے اور رہا ہے۔
وہ ظلمی لمحے سے مظلومی کے لمحے میں جانے سے پہلے ایک ایسی بکری ہوتا ہے جسے اپنی پیدا کردہ نر اولاد سے کسی فطری exceptionalism کی توقع رہتی ہے۔
کسی مظلوم کی قیادت اور رہ نما میں بھی اپنے ظلم کرنے کے لمحے کو avail کرتے وقت اس ظلم کی کَڑی کا ادراک نہیں کر پاتے جس کی رسیوں کے ریشوں کو وہ بُنتے ہیں اور اس کی ترویج کرنے کا مُوجب بنتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھ پاتے کہ ظلم نامیاتی اور motile ہے، یہ رکتا نہیں پہیوں پر چلتا جاتا ہے۔
مجھے ساری احمدی کفر قراری تحریک کی یاد آتی ہے کہ کس طرح اس وقت سب مؤمن اور امتی اکٹھے تھے۔
ہمارے یہاں ظلم کے خلاف مظلوم کی جد و جہد میں شامل افراد مستقل نہیں رہتے۔ ان کا وجود ہمارے سکولی وقتوں کی آٹھویں جماعت کے ریاضی میں پہلی بار دیکھنے کو ملنے والی وہ الجبری مساوات ہے، جس میں کئی برَیکَٹیں ہوتی تھیں۔ وہ بریکٹیں اپنے عمل کرنے کی ترجیح طے کرتی تھیں: کبھی ضرب کی باری، کبھی تقسیم کا وقت، کبھی جمع، کبھی تفریق اور کبھی بڑی بریکٹ، کبھی درمیانی، کبھی قوسین…
… this is some wheels into wheels, circles into circles, lines into lines, dots upon dots, and repelling of those who have become gone-cases.
تو بس ضرورت ہے تو یہ سمجھنے کی مظلوم اپنے ظلم کے لمحے پر معافی تلافی کرے، اور موجودہ ظالم کے خلاف خرد سے ضو فشاں، ذہانت آموز رحم دلی اور ہم احساسی اجاگر کرتے، درد کے سب رنگ جمع کر کے جد و جہد کا آغاز کریں۔
اور ظاہر ہے یہ پیچیدہ خیال مظلوم کے رہ نماؤں کے دماغ تک پہلے پہنچے اور وہ اس کو اپنی سوچ میں تخلیقی سنگھاسن پر بٹھائیں۔