(ثنا ڈار)
“ہمارے بیٹے کے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے، صرف ایک گاڑی کی کمی ہے۔” یہ مکالمہ کسی کار شو روم میں نہیں بلکہ ایک ایسے گھر میں جاری تھا جہاں دو خاندان اپنے بچوں کے لئے جیون ساتھی چننے کے لئے جمع تھے۔ ایک وقت تھا جب لڑکی کے والدین لڑکے کا روزگار اور خاندان دیکھ کر رشتہ طے کر دیتے تھے، جبکہ لڑکے والے سلیقہ مند اور مناسب شکل و صورت کی لڑکی کو دیکھ کر بات طے کر دیتے تھے۔
لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ شادی کے سلسلے میں لوگوں کے معیار بھی بدلتے گئے۔لڑکیوں کے والدین اب اپنی بچیوں کو سلیقہ مندی اور گھر داری کے ساتھ ساتھ اعلٰی تعلیم بھی دلاتے ہیں۔ لیکن پڑھی لکھی اورمناسب شکل و صورت کی کئی لڑکیاں اب بھی شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ آپ کی بیٹی وکیل ہے، مردوں میں کام کرتی ہے، بہت تیزہو گی، ہمیں تو کوئی سیدھی سادی لڑکی چاہئے جو ہمارا گھر سنبھال سکے۔
اکثر لوگ لڑکی کے خاندان والوں پر اپنا رعب جمانے کے لئے انتہائی انسانیت سوز باتیں بھی کر جاتے ہیں۔ جن سے نہ صرف لڑکی بلکہ اسکے گھر والے بھی احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آپ کی بیٹی کا قد بہت چھوٹا ہے، میرے بیٹے کو پانچ فٹ چار انچ کی لڑکی چاہئے، آپ کی بیٹی کا قد دو انچ بھی زیادہ ہوتا تو ہم بات پکی کر دیتے۔ لڑکی کی عمر زیادہ ہے، لڑکی کا شناختی کارڈ دکھائیں، پھر بات آگے چلاتے ہیں۔ یتیم بچی ہے، ہم تو یہ سوچ کر رشتہ لے کر آ گئے کہ ثواب ملے گا۔ نجانے ایسے خدا ترس لوگ یتیم خانوں سے جا کر بے آسرا بچوں کو گود کیوں نہیں لے لیتے۔
والدین تو ایک جگہ ٹھہرے، پڑھے لکھے لڑکے بھی آج کل عجیب و غریب مطالبات کرتے ہیں۔ تمہارا قد بہت چھوٹا ہے، میرے خاندان والوں کے سامنے ایڑی والا جوتا پہن کر رکھنا، تم منہ کھول کرکیوں ہنستی ہو، ہمارے خاندان میں لڑکیاں ایسے نہیں ہنستیں، میں اے سی لگوا لوں یا تم جہیز میں لے کر آؤ گی۔ مجھے جہیز میں کچھ بھی نہیں چاہئے، ہاں تمہارے والدین اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ایک ٹرک میں سارا سامان آجائے گا یا دو ٹرک بھجواؤں۔ شرمندگی کی بات تو یہ ہے کہ لڑکی بعد میں رخصت ہوتی ہے جبکہ ٹرکوں میں سامان لاد کر ہفتہ پہلے بھیج دیا جاتا ہے۔
ہم بچپن سے ایک کہاوت سنتے آ رہے ہیں کہ جس گھر میں بیری کا درخت ہو وہاں پتھر تو آتے ہیں۔ لیکن یہ پتھر تو ایسے ظالم ہیں کہ ایک جیتی جاگتی، ہنستی کھیلتی لڑکی کے جذبات کو لہولہان کر دیتے ہیں۔ ایک طرف والدین کی جانب سے شادی کے لئے دباؤ تو دوسری جانب یہ معاشرہ شادی کب کرو گی؟ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟ شادی کیوں نہیں ہو رہی؟ جیسے سوالات کی بوچھاڑ کرکے اچھی بھلی، نارمل لڑکیوں کوذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ چھوٹی، موٹی، کالی بھینگی ،غریب خاندان کی، تیز طرار، مردوں کے ساتھ کام کرنے والی کے طعنے دے کر لڑکیوں کو مسترد کردینے والے لوگ نجانے کیسے یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کو یہ پتھر ان کے بیری کے درخت کو بھی لگ سکتے ہیں۔
بالکل درست نشاندہی کی ہے آپ نے. آج کل شادی بھی ایک کاروباری معاہدہ بنتی جارہی ہے جس میں دونوں فریق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں
بہت جیو یارا۔ کیا خوب نشاندہی کی ہے۔