نو جوانوں کے خواب ، عمران خان اور ہمارے تنقیدی رویے

نو جوانوں کے خواب

نو جوانوں کے خواب ، عمران خان اور ہمارے تنقیدی رویے

رپورٹ روزنِ نظر

جمشید اقبال: خواب ٹوٹتے ہیں، دُکھ ہوتا ہے اور پھر پرانے خوابوں کی جگہ نئے خواب لے لیتے ہیں لیکن ان خوابوں کی اساس کچھج حقائق  پر رکھی جاتی ہے۔ ایک نوجوان کی زندگی میں خوابوں کے ٹوٹنے اور پھر سے پیدا ہونے کے واقعات بالکل ایسے رونما ہوتے ہیں جیسے کائنات میں ستاروں کے بلیک ہولز میں بدلنے اور پھر نئے ستارے پیدا ہونے کے واقعات۔

کائنات میں ایسے واقعات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، ہمیں کوئی خبر نہیں۔ لیکن کسی نوجوان کی زندگی میں خوابوں کے ستارے ٹوٹنے اور بننے سے وہ سیکھتا ہے، بالغ النظر ہوتا ہے، نظری و فکری لحاظ سے آگے بڑھتا ہے، پریکٹیکل ہوتا ہے، تنقیدی فکر سے مالا مال ہوتا ہے؛ اور پھر صاحب الرائے سے صائب الرائے بن جاتا ہے۔

اس ملک کے لاکھوں نوجوانوں نے اپنے خوابوں کے ستارے عمران خان کی فتح سے جوڑ رکھے ہیں۔ ہم اکثر انہیں یہ کہتا سنتے ہیں کہ عمران آخری امید ہے۔ اس کے بعد اندھیرا ہے۔

اس بار اس کی پارٹی اکثریت میں ہے تو ان کے چہروں پر عجیب سی خوشی دکھائی دیتی ہے جو اندھیرے کے بعد آنے والے روشنی کی نوید سے چہروں پر آتی ہے۔

لگتا ہے اگر عمران کو موقع نہ ملے تو یہ بچے ساری زندگی یہ سوچتے رہیں گے کہ اگر عمران کو موقع ملتا تو اس ملک کے تمام مسائل حل ہو جاتے اور ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

یہ بچے کسی اور ملک یا سیارے کے بچے نہیں ، ہمارے اپنے بچے ہیں ۔ یہ تھوڑے بے صبر ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے تمام مسائل حل کرنے والا فورا اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے تا کہ سب ٹھیک ہو جائے۔

عمران خان پر منفی تنقید کر کے ہم ان نو جوانوں کے خوابوں کا مذاق اڑا کر ان میں تلخی کا زہر بھر رہے ہیں۔ اس پر مثبت اور تعمیری تنقید ہونی چاہیے، وہ ایک سیاسی لیڈر ہے اور تعمیری تنقید ایک لیڈر کے لیے چاپلوسی اور خوشامد کے زہر کا تِریاق ثابت ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے مگر خان کو پورا موقع دینا چاہیے کہ وہ حکومت بنائے اور اپنے وعدے پورے کرے۔

وہ اگر اپنے وعدے پورے نہیں کر سکتا تو کوئی بات نہیں، یہ نوجوان کوئی نیا خواب دیکھیں گے جس کی بنیاد کچھ زمینی حقائق پر ہو گی، امید کا ایک ستارہ ٹوٹے گا تو ہو سکتا ہے کہکشاں بن جائے، انہی نوجوانوں سے ملک کو قائدین کا نیا جہان ملے۔

ہمیں یہ خیال منفی تنقید سے باز رکھ سکتا ہے کہ وقت کے سمندر میں پانچ برس کی اوقات ایک بوند سے بھی کم ہے۔


مزید دیکھیے: چیف جسٹس صاحب کرپشن کا دروازہ کھول رہے ہیں، یا بند کر رہے ہیں؟

یہ معیشت نہیں ہے، مشیّتِ ایزدی ہی ہے

یہ وقت دعا ہی نہیں وقتِ دوا بھی ہے

مجھے پاکستان کیوں عزیز ہے؟


فیاض ندیم: اس دن سے ڈر لگ رہا ہے جس دن نئی نسل  کے ذہن میں خادم حسین رضوی کے ڈالے خواب جوان ہو  جائیں گے اور ہمیں خوابوں کا پھر احترام کرنا پڑ جائے گا۔

یاسر چٹھہ: اگر اس طرح کے خوابوں والے زیادہ تعداد میں جمع ہو جائیں، یا کر دیے جائیں تو مجبوراً ماننا پڑے گا۔ لیکن ایسے خوابوں کو خوابوں کے دکان دار  حتیٰ الوسع پاؤں کے نیچے رکھتے ہیں۔

ان سے صرف controlled conditions میں ہی فیض آباد تجربات کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ راہ بھٹک جائیں تو انہیں بُرے طالبان کا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت کا ایجنٹ قرار دینے کے لیے ختنہ ٹیسٹ لگایا جاتا ہے۔ اپنے ہوں اور کنٹرولڈ کنڈیشنز میں رہنے کو تیار ہوں تو بھلے عدالت عظمیٰ کی دیوار پر اپنے پا جامے سُکھائیں، آئین پاکستان آزادی اظہار و اتار کا حق دیتا ہے۔

بہ ہر حال جنگل میں جو کرے گا، صرف کنٹرول کرنے والا درندہ ہی کرے گا۔ ہم نا تو ایرانی آیت اللہ ہیں، نا ہی جرنیل کی مجلس شوریٰ کے ننھے ابلیس وغیرہ