حکومتی سطح پر زیادہ قرضے کیوں لیے جاتے ہیں؟
از، اسد الرَّحمٰن
قرضے کے معاملے پر رائے عامہ کی لکیر کے بائیں اور دائیں جانب کافی کنفیوژن ہے۔ قرض کیا ہے اور کیا پاکستان، یورپ یا امریکہ کے قرض ایک ہی نوعیت کے ہیں؟ پاکستان پہ زیادہ بڑا قرض بیرونی ہے، یا اندرونی؟ قرض کا مالیاتی نظام پہ انحصار کا نیو لبرل سرمایہ داری نظام سے کیا تعلق ہے؟ اور ریاستی قرض کیوں پچھلی کچھ دھائیوں میں بڑھا ہے؟
یہ سب سوال سنجیدہ ہیں اور ان کے لیے کوئی پہلے سے تیار کردہ جواب کافی نہیں ہے۔
قرض (ریاستی) نیو لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی حصہ اس لیے ہے کیوں کہ ریاست نے خود کو معاشی پیداوار کنٹرول کرنے سے دور کر لیا۔ ساتھ ہی میں بڑے کاروباروں کو ٹیکس چھوٹ بھی دی گئی اور ان پہ ٹیکس کی شرح کو کم کیا گیا تا کہ وہ اپنے کاروبار کو پھیلائیں اور کاروبار کے پھیلاؤ کے نتیجے میں نوکریاں اور ریوینیو میں اضافہ ہو۔ (Economies of Scale) کے معاشی تصور سے اس پالیسی کے پیچھے چھپی منطق کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ریاست اپنی اخراجات زیادہ ریوینیو کے ذریعے پورے کرنے کی کوشش کرے گی۔
ریاستی اخراجات جیسے صحت، تعلیم، ایڈمنسٹریشن اور دفاع کے لیے ضروری رقوم اگر ریوینیو سے پوری نہ ہوں تو ان کے لیے قرضہ ایک اِنسٹرومنٹ کے طور پہ استعمال ہوتا ہے۔
پاکستانی ریاستی اخراجات معشیت اور شہریوں کی بہتری پہ بہت کم استعمال ہوتے ہیں بل کہ ان کا خرچ ایڈمنسٹریشن اور دفاع پہ ہی زیادہ ہوتا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد چُوں کہ ساٹھ فیصد کے قریب وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے اس لیے سارے کا سارے دفاع اور ایڈمنسٹریشن قرضے کے ساتھ ہی ہونے لگا ہے جس کے باعث پچھلے بارہ سال میں کل قرضہ چھ ہزار سے بڑھ کر آج پینتیس ہزار پہ پہنچ گیا ہے۔
پاکستان کا بیرونی قرضہ اس کے اندرونی قرضے کا آدھے سے بھی بہت کم ہے۔ زیادہ بڑا مسئلہ اندرونی قرضہ ہے اور وہ حد سے بڑھے ہوئے دفاعی اور کرنٹ اخراجات کی وجہ سے ہے۔
یورپ اور امریکہ کا قرضہ اور اس کے بڑھنے کی وجوہات پاکستان کے قرضے سے اپنی نوع میں مختلف ہے۔