انتہا پسند مائنڈ سیٹ کے لیے بنیادی اقدامات
(ایوب ملک)
ریاستیں تاریخی طور پر ہمیشہ کوشش کرتی رہی ہیں کہ علم پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے معاشرے کے ذہن کو ریاستی نظریات کے مطابق ڈھالنے میں استعمال کریں۔ پاکستان میں بھی یاسیت نے آہستہ آہستہ اپنا موقف بدلنا شروع کیا اور نصاب کی کتابیں جو ابتدائی دور میں لبرل نقطہ نظر پیش کرتی تھیں اب وہ کسی حد تک نظریاتی طور پر انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں۔
پاکستان میں آج انتہا پسندی ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مذہبی مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں مذہبی انتہاپسندی کے مرکز بن چکے ہیں۔ ولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان کی جنونی گروہ کے ہاتھوں شہادت یونیورسٹیوں میں مذہبی انتہاپسندی کی بدترین مثال ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (I.S.P.R) نے یونیورسٹیوں میں مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کے معاملے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جی ایچ کیو میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں، سول سوسائٹی کے اراکین اور دانشوروں کو مدعو کیا جہاں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ مذہبی انتہاپسندی کسی نظریے کا نام نہیں بلکہ مائنڈ سیٹ ہے جو عدم برداشت پیدا کرتا ہے۔
جنرل باجوہ نے اپنی تقریر میں خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ آج ہماری آبادی کا 50 فیصد حصہ 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور آج سے 10 سال بعد یا تو ہم مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کیے گئے اقدامات کا پھل کاٹ رہے ہونگے یا پھر یہ دیکھ رہے ہونگے کہ کس طرح ہمارا نوجوان مذہبی انتہاپسندوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہے۔
نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور طالبان اور مذہبی انتہاپسندوں کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی فوج کا حصہ بنے، اس وقت سے لے کر اب تک کسی فوجی سربراہ کا مذہبی انتہاپسندی کے خطرے کو محسوس کرنے اور انتہاپسندانہ مائنڈ سیٹ کے نقصانات کے بارے میں یہ اہم ترین بیان ہے۔
نائن الیون کے واقعہ اور افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعدجس طرح پورے ملک میں دہشت گردی پھیلی اُس پس منظر میں اکثر مذہبی مدارس کا نام لیا جاتا رہا۔ یہ بات کسی حد تک تودرست ہو سکتی ہے کیونکہ طالبان کا تعلق مذہبی مدارس سے ہی تھا مگر پھر دہشت گردی کی بہت سی وارداتوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاریوں کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ یونیورسٹیاں بھی مذہبی انتہاپسندی کا گڑھ بن گئی ہیں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان بھی بعض بڑی تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
یوں یونیورسٹیوں میں مذہبی انتہاپسندی کے معاملے کی سنجیدگی عیاں ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق نے جب طلبہ یونین پر پابندی عائد کی تو دائیں بازو کی طلبہ تنظیم اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے پورے ملک میں احتجاج کیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کی حکومت اور دائیں بازو کی جماعت میں مذاکرات ہوئے، اس کے بعد ایک مخصوص انتہاپسند ذہن کے مالک افراد کو استاد مقرر کیا جانے لگا۔
یہ استاد سائنس، آرٹس، کامرس غرض ہر شعبے میں شامل ہوئے۔ پھر یونیورسٹیوں کے نصاب میں ایک منصوبہ کے تحت سائنس، تاریخ، اردو اور انگریزی کی کتابوں میں جنونی مواد شامل کیا گیایوں سائنس اور مذہبی کتابوں میں فرق مٹ گیا۔ پھرہم نے دیکھا کہ یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیق میں بھی انتہاپسندی کو اہمیت دی گئی۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس، کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں اپنے متعلقہ شعبہ سے تعلق رکھنے والے موضوعات کی بجائے مخصوص مذہبی مسائل پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی گئیں۔ پھر یونیورسٹیوں میں اسلامیات کے شعبے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئے۔ جو لوگ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھرتی ہوئے تھے ان میں سے بعض یونیورسٹیوں کے ڈین اور وائس چانسلر بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں سے ڈگری لینے والے دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
آج ہندوستان و پاکستان،اسرائیل و فلسطین ،یونان ترکی و قبرص اور جنوبی وشمالی کوریا میں خاص طور پر نوجو انوں کو نصابی کتابوں کے ذریعے تعصب اور نفرت کیساتھ پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ یہاں میں نیلسن منڈیلا کی دورس قیادت کا ذکر ضرور کروں گا کہ جس نے سفید فام حکومت کے مظالم کے باوجود اقتدار میں آنے کے بعد نصاب کی کتابوں میں نئے سرے سے ماضی کے بارے میں مثبت خیالات پیش کئے۔
اگرچہ ہر معاشرے میں ایسے دانشور ضرور موجود ہوتے ہیں جو ان ریاستی اقدار سے انحراف کرتے ہیں اور صرف انسانیت کی با ت کرتے ہیں لیکن ان کی آواز تعصب ،تنگ نظری ،دہشت گردی اور نفرت میں دب جاتی ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر مبارک علی اور پرویز ہود بھائی اس کی کچھ زندہ مثالیں ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نصاب کی تشکیل ان ماہرین سے کروائی جائے جو اپنے مضمون میں تبدیلی کی رفتار سے آگاہ ہوں۔ آج ماحولیات، آئی ٹی، فلکیات اور جینیات (genetics) کے مضامین پر دنیا میں بہت کام ہو رہا ہے۔ اگر نصاب کی کتابوں میں تعصب اور نفرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ان مضامین کو نہیں پڑھایا جائے گا تو طالب علموں تک جدید نظریات کا علم نہیں پہنچ سکے گا اور یوں نوجوان تحقیق کی بجائے تقلید ہی کے پیرو کار رہ جائیں گے۔
چیف آف آرمی اسٹاف کی یہ بات درست ہے کہ انتہاپسندی ایک مخصوص قسم کا مائنڈ سیٹ ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے نصاب سے شدت پسند مواد کو نکالنے، سائنس کو سائنس کے مضمون کے طور پر پڑھانے اور ریسرچ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
کیسی بدقسمتی ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں سائنٹفک ماحول کی بجائے ہر طرف انتہاپسندی ہی نظر آتی ہے۔ جو استاد اور طالب علم اس انتہاپسندانہ ماحول کو چیلنج کرتا ہے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جنرل باجوہ کی اس بنیادی تقریر کے مطابق انتہاپسند مائنڈ سیٹ کے خاتمے کی جتنی بنیادی تبدیلیوں کی آج ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی ۔