پاناما ججمنٹ کا ڈھول اور ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ
از، احمد علی کاظمی
پاناما ججمنٹ میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اپنے الفاظ میں میاں نواز شریف صاحب درج ذیل دلائل کی بنیاد پر تا حیات نااہل قرار دیے گئے تھے۔
نواز شریف متحدہ عرب امارات میں حسین نواز کی ایک کمپنی کے چئیرمین تھے۔ کمپنی دستاویزات کے مطابق چیئرمین کی تن خواہ دس ہزار درہم ماہانہ تھی۔ اگر چِہ کوئی ایسی دستاویز نہیں تھی جو یہ دکھاتی ہو کہ یہ دس ہزار درہم وصول کیے گئے۔ تاہم بلیک لاء ڈکشنری کے مطابق ایک قابل وصول رقم بھی اثاثہ جات میں شمار ہوتی ہے۔
میاں صاحب نے اپنے کاغذات نام زدگی میں اس رقم کو ظاہر نہیں کیا لہٰذا یہ رقم ظاہر نہ کرنا، بر حلف جھوٹا بیان دینے کے مترادف ہے اور وہ صادق اور امین نہیں رہے۔
حنیف عباسی نے جب اسی اصول کے تحت سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف پٹیشن دائر کی کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں بیان حلفی جمع کروایا جس میں پارٹی فنڈ میں حاصل شدہ بیرونی رقوم چھپائی گئی ہیں تو ثاقب نثار نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ جب تک الیکشن کمیشن اس بات کا تعین نہیں کرتا کہ متعلقہ فارمز میں تمام رقوم ظاہر نہیں کی گئیں، عدالت اس معاملے پر کوئی رائے نہیں دے سکتی۔
اگر چِہ نواز شریف کے معاملے میں سپریم کورٹ نے خود ہی اس بات کا تعین کر لیا تھا کہ رقم وصول نہ ہو کر بھی ظاہر کی جانی چاہیے تھی جو نہیں کی گئی۔
بہ ہرحال، اب الیکشن کمیشن اس بات کا تعین کر چکا ہے۔ پاناما کیس کی روشنی میں رقم چھپانے سے خود بہ خود بر حلف جھوٹ بولنا صادق آ جاتا ہے۔ حلف نامہ جمع کروانے والے کی نیت، اس کو پوری حقیقت کا علم نہ ہونا یا غلطی کی گنجائش ہونے کا بھی اعتبار نہیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ دس ہزار درہم تب فقط تین لاکھ روپے بنتے تھے، اس لیے چھپائی گئی رقم کا معمولی یا زیادہ ہونا بھی معنی نہیں رکھتا۔ اگر چِہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق تقریبا پونے دو ارب روپے کی رقم چھپائی گئی ہے۔
ان حالات میں پاکستان کی سیاسی تاریخ اس دو راہے پر آ کھڑی ہے جب سپریم کورٹ آف پاکستان کے کیا کرتی ہے اس کے دیکھنے کا وقت ہوتا ہے۔