میاں صاحب ، دشت امکاں اور سہ پہر کا مکالمہ
(راجہ قیصر احمد)
میاں صاحب اگر “ماریو پوزو” کے گاڈ فادر نہیں ہیں تو” “Kate Christensenکے ناول “The Epicure’s Lament”کے ”Hugo Whittier”ضرور ہیں ۔ یقین مانئے میں میاں صاحب کی بابت میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وہ ایک بھولے سے سیاست دان ہیں اور کارِ سیاست کی پیچیدیوں سے یکسر نا آشنا۔مگر حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے۔ وہ ایک انتہائی گھاگ سیاست دان کے طور پر ابھرے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں فوج کے ساتھ بھی ہیں اور اس کے مخالف بھی ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہیں اور اس کے حریف بھی ہیں۔ وہ لبرل بھی ہیں اور اُن سے بڑا قدامت پرست بھی کوئی نہیں۔وہ جمہور کے حامی ہیں مگر جتنی جمہوری قدغنیں ان کے دور میں آئین اور قانون کا حصہ بنی ہیں اس کی رو سے شائد یہ بلاشبہ سیاہ ترین جمہوری دور کہا جا سکتا ہے۔ اب اصل میں میاں صاحب کیا ہیں یہ ہم مییں سے کوئی نہیں جانتا۔ وجاہت مسعود لکھتے تو خوب ہیں مگر جتنی بھی نظام کے تسلسل اور جمہوری احیاٗ کے حق میں دلائل دے لیں مگر یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ میاں صاحب کے اس دور نے جتنا شہری آزادیوں کو سلب کیا ہے وہ شائد کسی آمرانہ یا فسطائی دور میں بھی ممکن نہ ہو سکتا۔خورشید ندیم صاحب بھی اس ضمن میں اپنی توجہیہ دے سکتے ہیں۔ کیا اس حقیقت سے فرار ممکن ہے کہ سانحہِ پشاور کی آڑ میں جو کاغذ کی فصیل ہم نے بنائی اُس نے راسخ الاعتقاد، بنیاد پرست اور قدامت پسند سوچ کی ایسی نئی فصل کاشت کی جو ضیائی دور کی تنگ نظری کو بھی مات دے گئی اور جس کو ہم کبھی مردان تو کبھی چترال میں کاٹ رہے ہیں۔
قدیم یونانی مورخ “تھیسی ڈائڈز” نے اپنی کتاب “The History of Peloponnesian War” میں لکھا تھا کہ سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کامیاب سیاست دان وہ ہے جو موقع پرست ہو اور حالات کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ عمران خان نواز شریف کے ہاتھوں پے درپے مار اسی لئے کھا رہے ہیں کہ نواز حقیت پسند ہیں اور خان مثالیت پسند۔قضیے کو چھوڑیں ڈان لیکس کی طرف آئیں۔ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے اور بہت پیچیدہ بھی نہیں۔ گزارش بس یہ ہے کہ میاں صاحب اور میر شکیل الرحمان کا 2013کے الیکشن سے پہلے اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ جیو ن لیگ کو الیکشن میں سپورٹ کرے گا جب کہ ن لیگ الیکشن جیت کر سویلین بالادستی کو بحال کرے گی۔ فوج کواس کے آئینی کردار کی طرف دھکیلا جائے گا اور یوں میاں صاحب طیب اردگان بن کر ابھریں گے اور پاکستان معاشی ترقی کی منزلیں راز افزوں طے کرے گا اور یوں راوی چین ہی چین لکھے گا۔ میر نے کیا ہی خوبصورت الفاظ میں لکھا تھا
شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
میاں صاحب جہاں پہ غلطی کر گئے یا یوں کہیں چوک گئے وہ نظریہ جمہوریت کی بنیادی سی اکائی تھی کہ جمہوریت انتخابی عمل کا نام نہیں بلکہ حکمرانی اور طرزِ حکمرانی کا نام ہے۔ جمہوریت ادارہ جاتی حکمرانی اور احتسابی کلیہ ہےاور میاں صاحب اداروں کو مضبوط ہوتا پنپتا دیکھ نہیں سکتے۔ اُن کا کارِ حکومت تو ذاتی وفادری اور جز وقتیت پہ مبنی ہے۔ عرفان صدیقی، نجم سیٹھی، ابصار عالم اور عطاالحق قاسمی اس کی روشن مثال ہیں۔ بادی النظر میں میاں صاحب فوج سے بد گمان تھے۔ اسی لئے ۲۰۱۱ میں آزادکشمیر میں الیکشن کمپین کے دوران ان کے ذہنی رجحان کی عکاسی ہوئی جب ببانگ دہل فرمایا کہ کشمیریوں پر بھارتی افوج سے زیادہ ظلم پاکستانی افواج نے ڈھایا۔ یہ بات گو معروضی طور پر غلط تھی اور میں بحثیت کشمیری بھی اس بیان سے متفق نہیں ہوں۔ مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت اور سیفما سیمینار سے خطاب بھی براہ راست فوج کو پیغام تھا۔ ہم میں سے بیشتر لوگ فوج کے سیاسی کردار کے ناقد ہیں اور بجا طور پر ہیں مگر میاں صاحب اور اُن کے رفقاٗ نے فوج پر وار کا راستہ چنا اور یوں حامد میر حملہ کیس کی آڑ میں فوج پر لشکر کشی کی گئی۔دلیل اور غلیل کوئی بہت پرانا قصہ نہیں
ﺳﺐ ﻓﺴﺎﻧﮯ ﮭﯿﮟ ﺩُنیاﺩﺍﺭﯼ ﮐﮯ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﺎ ﺳُﮑﻮﻥ ﻟُﻮﭨﺎ ﮭﮯ
ﺳﭻ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮭﮯ کہ ﺍِﺱ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟُﮭﻮﭨﺎ ﮭﻮﮞ ﺗُﻮ ﺑﮭﯽ ﺟُﮭﻮﭨﺎ ﮭﮯ
فوج کے میاں صاحب کی بابت میں جو تحفظات ہیں اُن کا بڑا سبب میاں صاحب اور ان کے رفقاٗ کا فوج کے ضمن میں خلجان بھی ہے۔ ہمارے وہ تمام احباب جو سویلین بالادستی کے خواہشمند ہیں اُن میں ہم بھی شامل ہیں مگر عرض صرف اتنا ہے کہ مابعد نو آبادیاتی ریاستوں میں طاقت اور اداروں کا عدم توازن ایک معروضی حقیقت ہے۔ ہم در حقیقت تاریخ کے شعور سے ناآشنا قوم ہیں ورنہ ترکی کے وزیر اعظم عدنان مینڈرس کی مثال کافی ہے۔ شمالی اور وسطی افریقی کی ریاستوں میں فوج کا بالواسطہ اور بلاواسطہ کردار بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ عائشہ جلال کی کتاب The State of Martial Rule” اُن تمام عوامل کا جائزہ لیتی ہے جنہوں نے پاکستان میں ادارہ جاتی عدم توازن کو نہ صرف جنم دیا بلکہ مستحکم بھی کیا۔ منیر نیازی نے بھی شائد درد کی عجب رو میں بہہ کر کہا تھا
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
ڈان لیکس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ راحیل شریف کی مقبولیت سے خائف جو درحقیقت اتنی نہیں تھی جتنی بنائی اور پھیلائی گئی فوج کو پھر سے دباوٗ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ جنرل کیانی نے اپنے دور میں فوج کے لئے ایک نیا کردار تخلیق کیا جس کو “Soft Coup” بھی کہا جا سکتا ہے کہ خود سامنے آئے بغیر حکومت کی جائے اور ہر بحران میں حکومت سے کچھ نہ کچھ بارگین کیا جائے۔ یوں ہی خارجہ پالیسی اور افغان پالیسی آرمی نے اپنے ہاتھ کر لی اور زرداری صاحب سندھ میں جرائم اور گینگ کا سینڈیکیٹ چلاتے رہے۔ جب پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا تو ہوش آیا اور پھر سویلین بالادستی کی بھونڈی سی کوشش میں میمو گیٹ جیسی خفت پیپلز پارٹی کے دامن سے آ جڑی۔ ڈان لیکس کے ضمن میں بھی یہی ہوا ہے۔ تیسری نقب مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات
ہزاروں ڈوبنے والے بچا لئے لیکن
اس میں کیسے بچاؤں جو ڈوبنا چاہے
میاں صاحب کی مثال اس بچھو کی سی ہے جس کے چاروں طرف اگر آگ لگا دی جائے تو وہ اپنے آپ کو ڈنگ مار کے خود کشی کر لیتا ہے۔ مریم بی بی کو راتوں رات لیڈر بننے کی منہ زور خواہش نے آلیا اور یوں وہ ہوا جو ہم ڈان لیکس کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اٹلی میں 2016 میں جب راقم کو Bolzano میں ساوٗتھ ٹرولین پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع ملا تو وہاں پر پارلیمنٹ کے صدر تھامس وائڈمین نے بتایا کہ لوگوں کو حکمرانوں سے نہیں حکومت سے غرض ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یورپ سارے میں مقامی حکومتیں اتنی طاقتور اور مضبوط ہیں کہ زیادہ تر لوگوں کو وزیر اعظم کے نام سے ہی آگاہئ نہیں ہوتی۔ میرے وہ تمام احباب بشمول ساہی صاحب اور کیری لوگر بل کی عطا کردہ سول سوسائٹی جو سویلین بالادستی کی خواہشمند ہے اور ٹویٹ سے نالاں ہے ان سے ؑرض بس اتنی ہے کہ سیاست دانوں کو سیاست کرنے دیجیے، فوجیوں کو جنگ کرنے دیجیے۔طرزِ حکمرانی کو بہتر کیجئےاور اس ملک کے اشرافیہ زدہ عمرانی معاہدے کو از سرِ نو پرکھئیے۔ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔ فوج اپنے آئینی دائرہ کار میں تبھی آئے گی جب سیاست دان بہتر حکومت کریں گے۔ اپنی ناکامی کے باب میں فوج کو ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اگر فوج آپ کو کام نہیں کرنے دیتی تو اخلاقی جراٗت کا مظاہرہ کریں اور استعفی دے کر باہر آئیں پھر شاید آپ کی قوم کی بھی ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کو تیار ہو جائے۔
میاں صاحب نوٹیفیکیشن کو واپس لے لیں گے۔ کچھ رعائتیں اور دے دلا کے چھوٹ بھی جائیں گے مگر نظام کی بالادستی، ادرہ جاتی تشکیلات ہمیشہ کی طرح خواب ہی رہیں گے۔ جہاں افراد طاقتور ہوں وہاں ادارے اور قانون کی حکمرانی ایک خوابِ لاحاصل سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ سیاست، ریاست اور جمہوریت کو از سر نو پرکھنے کی ضرورت ہے یہ “Political Theory” کا “ث”Crises”ہے اور یہ حلق پھاڑ کرنظام کے تسلسل کے نعرے لگانے سے حل نہیں ہو گا۔
رنگ بھرتے تھے سادہ کاغذ پر
اپنے خوابوں کو لفظ دیتے تھے
اپنی دھڑکن کی بات لکھتے تھے
دل کی باتوں کو لفظ دیتے تھے
اس کے ہونٹوں سے خامشی چن کہ
اس کی آنکھوں کو لفظ دیتے تھے
چاندنی کی زباں سمجھتے تھے
چاند راتوں کو لفظ دیتے تھے
ایک مدت سے کچھ نہیں کہتے
اپنے جذبوں سے تھک گئے جیسے
اپنے خوابوں سے تھک گئے جیسے
دل کی باتوں سے تھک گئے جیسے
اس کی آنکھوں سے تھک گئے جیسے
چاند راتوں سے تھک گئے جیسے
ایسے خاموشیوں میں رہتے ہیں
اپنے لفظوں سے تھک گئے جیسے