لے لو پانچ روپے کا بھگوان
کشور ناہید
میں امریکہ کے متوقع صدر کا آپس میں مکالمہ سن رہی تھی۔ تینوں مکالموں میں کسی نے بھی شائستگی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو ہر دفعہ کوئی بد تہذیبی کرجاتے ہیں مگر ہلیری نے زبان ہمیشہ قابو میں رکھی۔ اب ہم دیکھیں یہاں ایک کا کیا کہنا سارے رہنما (اگران کو رہنما کہا جائے) ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں، صرف بظاہر گالی ہی نہیں دیتے ورنہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو یہ لوگ کونسی زبان اور کون سا لہجہ سکھارہےہیں۔
میں نے کرن جوہر کو ٹیلیویژن پر بولتے ہوئے سنا تو مجھے یکدم ڈاکٹر قدیر کا انٹرویو یاد آگیا جب وہ confession کررہے تھے اور کچھ لکھا ہوا، آنکھ اوپر کئےبنا پڑھ رہے تھے۔ مجبوری کی گفتگو دونوں اشخاص کی تھی، وجہ یہ کہ دل سے کوئی بھی نہیں بول رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان، پاکستان کے سارے آرٹسٹ ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ سب ادیب ایک دوسرے کے ملک کا ادب پڑھنا چاہتے ہیں، مصور ایک دوسرے کے ملک کی پیٹنگز دیکھنا چاہتے ہیں۔ فنکار ایک دوسرے کے ملک کی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنا چاہتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایران اور امریکہ کے کتنے برے تعلقات رہے ہیں، مگر ایرانی فلمیں آسکر انعام حاصل کرتی رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر گولہ باری سے کبھی جانور اور کبھی انسان مرتے ہیں۔ اس وقت دیکھیں تو کشمیر کے تنازع کے باوجود دونوں طرف سے بسیں بھی آجارہی ہیں، ٹرین چل رہی ہے اور کانفرنسوں کے لئے وفود کے تبادلے بھی ہورہے ہیں۔ ادھر بے چارے یٰسین ملک کا بازو توڑ دیا گیا ہے، کرفیو میں کمی نہیں آرہی، کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا، انڈونیشیا سے مشرقی تیمور نے اور آئرلینڈ نے برکس (یعنی انگلینڈ) سے آزادی حاصل کی تھی۔ وہاں لڑائی بند ہوئی نا۔ لوگ اپنی ثقافت کو فروغ دیکر مطمئن ہیں۔ کچھ ایسے علاقے ہیں جیسے کینیڈا میں کیوبک وہ فرنچ بولتے ہیں، علیحدگی کا گزشتہ 20 برس سے مطالبہ الیکشن کے ذریعہ کررہے ہیں۔ اسی طرح اسپین میں بارسلونا سے متعلق حلقوں میں اسپینش نہیں کتلانا زبان بولی جاتی ہے، وہاں تمام دکانوں کے بورڈ بھی کتلانا زبان میں ہیں، وہ علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں نہ حکومت ان کی زبان کے خلاف ہے اور نہ لوگ۔
انڈیا کے چونکہ چاروں کونوں میں سفر کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ جنوبی انڈیا کے لوگ اپنی اپنی زبان بولتے، فلمیں بناتے، اپنے کھانے کھاتے، اپنے مذہب کے مطابق دعا کرتے ہیں۔ اسی طرح جین مذہب کے لوگ بھی اپنے طرز سےزندگی گزارتے ہیں۔ البتہ چھتیس گڑھ سے لے کر آسام کے علاقوں میں بھی آزادی کی لڑائی چل رہی ہے۔ صرف ارون دھتی رائے ان کے درمیان جاکر رہیں اور ان کے لوک گیت بھی سنے یا پھر مہا شویتا دیوی ان کے علاقے میں جاتی رہیں۔ میرا مقصد انڈیا کے عیب گنانا نہیں۔
ہمارے ملک میں بلوچوں اور سندھیوں کو بھی بہت شکایتیں ہیں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب وہ نہیں جو انڈین فوج کشمیریوں کے ساتھ کررہی ہے۔ رہا مذہبی رجعت پسندی کے تیور وہ بھلا پاکستان سے لے کر عراق اور یمن تک داعش کی شکل میں اور افغانستان میں القاعدہ کی شکل میں موجود ہیں۔ خود پاکستان کو جماعت الدعوہ اور حافظ سعید کے لشکر کی شکل میں موجود ہیں، جن کی سرگرمیاں بھی چھپی ہوئی نہیں اور جن کو ختم کرنے کے لئے مغربی ممالک سے لے کر اقوام متحدہ تک شور مچارہے ہیں۔ ابھی یونیسکو نے بیت المقدس کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کا اعلان کیا ہے۔اسرائیل نے بہت شور مچایا، سچ یہ ہے کہ بیت المقدس ان کی ملکیت نہیں ہے۔ جس طرح پاکستان کا شالیمار ہو کہ سرینگر کا، یہ ثقافتی مرکز ہیں۔ اسپین میں مسجد قرطبہ جس پر علامہ اقبال نے کمال نظم لکھی ہے، اس کے بنیادی ڈھانچے کو فرانکو بھی ختم نہیں کرسکا ہے۔ اسی طرح الحمرا کے محرابوں سے لے کر دیواروں تک پر لکھی ہوئی آیات نہ کسی نے مٹانے کی کوشش کی بلکہ وہاں تو اتنا رش ہوتا ہے کہ اب تو نیٹ کے ذریعے بکنگ کی جاتی ہے، پھر بھی اتنی لمبی قطاریں ہوتی ہیں کہ آپ کا اندر جانےکا مرحلہ کم از کم ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔
امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کی طرح سارے ملکوں میں مسجد، مندر اور گوردوارے اپنی اپنی کمیونٹی نے بنائے ہوئے ہیں۔ انگلینڈ میں مذہب سے لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ کئی چرچ تو ریسٹورنٹ بنادیئے گئے ہیں۔ روس میں ایسٹر کے موقع پر میں چرچ میں کھڑی تھی، صرف بزرگ عبادت کے لئے آرہے تھے۔ کاشغر ہو کہ تاشقند، مسجدیں بزرگوں سے بھری ہوتی ہیں۔ اسلام آباد سیکریٹریٹ میں ایک نہ ایک فلور پر مصلّے بچھے ہوتے ہیں جہاں لوگ نماز پڑھتے ہیں، جو نہیں پڑھتے ان کی تکذیب نہیں کی جاتی، شدت پسندوں کی طرح ڈنڈا ہاتھ میں لے کر پیچھے نہیں پڑجاتے اور دوزخ کی آگ سے جلانے کی تمہید نہیں باندھتے۔ مطلب یہ کہ مذہب آپ کی ذات اور تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔
ہمارے دیہاتوں میں بچوں کو قرآن حفظ کرادیا جاتا ہے، انہیں اس کے معانی معلوم نہیں ہوتے، اس کا روحانی اور عملی فائدہ تو نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں بھی جتنے سائیں بابا بنے ہوئے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ان پر بڑے بڑے لوگ خوب چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ ایک بابا سائیں کو سننے کے لئے سینکڑوں اور ہزاروں لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی بھی یہ سیکھ کر نہیں اٹھتا ہے کہ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اس لئے عامر خان فلم میں کہتا ہے کہ ’’لے لو لے لو پانچ روپے کا بھگوان۔‘‘