پنچایت اور عورت کی کہانی
ڈاکٹر صغری صدف
پنچایت اور عورت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب سے پنچایت وجود میں آئی ہے اس کی تمام تر سوچ بچار اور کارروائی کا ہدف عورت ہی رہی ہے۔ عورت کے خلاف قانون پر اطلاق میں سو فیصد اتفاق ہے۔ ہاں ہر علاقے کے رسم و رواج اور مزاج کے مطابق اس کی ظاہری صورت بُنی جاتی ہے مگر اندر خانے ہر فیصلے کے نتائج وحشت ناک ہی ہوتے ہیں۔
زمانہ بدل گیا، قانون بن گئے، عورت کے حقوق اور آزادی کے حوالے سے سینکڑوں تنظیمیں وجود میں آ گئیں تو پنچایت نے بھی اپنے اسکرپٹ میں تھوڑی تبدیلی کر لی۔ ایسی ہی تبدیلی ملتان کے واقعے میں دکھائی گئی۔ سوچ والے سوچتے رہ گئے، احساسات پر کوڑے برسے، دلوں سے آہیں نکلیں، فضا نے بین کئے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے مہذب ملک میں سر عام لٹ جانے والی بچیوں پر دست شفقت رکھا، تصویریں بنیں، رپورٹیں شائع ہوئیں اور پھر سناٹا چھا گیا۔
سب اپنے اپنے معاملوں میں مصروف ہو گئے۔ لٹنے والوں کی اذیت ویسی رہی۔ کاش زندگی بھی ڈرامہ یا فلم ہوتی تو ریمورٹ سے اسے پیچھے لے جاتے کہ آگے تو صرف کانٹے ہیں۔ سینکڑوں برس قبل مرد معاشرے نے اتفاق رائے سے طے کر لیا تھا کہ وہ عورت کے حوالے سے کبھی کسی تفریق میں نہیں پڑیں گے اور انہوں نے ایسا کر کے دکھا دیا۔ معاملہ بیٹی کا ہو، بہن کا، بیوی یا ماں کا ان اٹل فیصلوں میں کوئی نرمی نہیں ہو سکتی۔ یہ وہ واحد مخلوق ہے جس کے بارے میں پنچایت ہمیشہ غیر انسانی فیصلے کرتی اور عمل درآمد یقینی بناتی رہی ہے۔
ایک معصوم لڑکی سے زیادتی کے بدلے ایک اور معصوم لڑکی کو بربریت کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کر کے پنچایت نے 2017ء کی علمی اور روحانی دانش کو للکارا ہے وہاں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ کتنے مضبوط، متفق اور فعال ہیں۔ ان کے فیصلے پر اہل علاقہ کا بلکہ ہم سب کا خاموش رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم بھی پنچایت کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ میڈیا نہ ہوتا تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلنا تھا بہرحال کچھ دنوں کی آہ و بکا کے بعد کھلا کہ اس معاشرے میں یہ کوئی انہونی نہیں، روزانہ اخباریں ایسی وحشت ناک خبروں کو اشتہار بنا کر لوگوں کی توجہ پر دستک دیتی ہیں۔
میڈیا کچھ دن چیختا ہے پھر اس کی بھی آواز بیٹھ جاتی ہے۔ کیا کرے کتنے پروگرام کرے، جب اکثریت اس خبر کو اہمیت ہی نہ دے۔ جب قانون طاقتوروں کے اشاروں پر رقص کرنے لگے، جہاں مذہب، فرقے اور قومیت کے نام پر سڑکیں بلاک کر دی جائیں وہاں معصوم لڑکی کی اذیت پر دُکھ خاموشی کی چادر تان لیتا ہے کیوں کہ ظالم جانتا ہے کہ ہر فرد اپنی جان اور عزت کے خوف میں مبتلا ہے اس لیے ظلم کے خلاف اکٹھ نہیں ہو سکتا۔
صدیوں پہلے برصغیر کے بڑوں نے مرد کی ہر اخلاقی لغزش کی سزا عورت کے لیے مختص کرنے کے لیے پنچایت کی بنیاد ڈالی تھی، طے پایا کسی لڑکی سے زیادتی ہو یا اس کی مرضی کے خلاف اس کے احساسات کو مجروح کر دیا جائے تو گنہگار بھی وہی ہو گی، کچھ ایسا ماحول ہے کہ وہ الزام لگانے سے باز رہے، زیادتی کو خاموشی سے برداشت کرے، زمین، جائیداد کا جھگڑا ہو، خاندانی تنازع ہو، قتل کے مجرم کی معافی کا معاملہ ہو، عورت کو قربانی کے لیے تیار رہنا چاہئے، کیا ہوا اگر اس کی مرضی کے خلاف اسے مفادات کے عوض بیچ دیا جاتا ہے۔ کیا ہوا اگر معصوم اور نابالغ بچیوں کو ادھیڑ عمر مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔
کیا ہوا اگر انہیں کاری کر دیا جاتا ہے۔ بھئی کمزور ہونے کا تاوان تو ادا کرنا پڑتا ہے مگر ہمارے پاس مفروضہ موجود ہے جو ہمیں مشرقی معاشرے میں عورت کی عزت، چادر اور چار دیواری کا واویلا کرنے پر اکساتا ہے۔ چار دیواری اور چادر کا تقدس دیکھئے ہر گالی کا ہدف وہ ہے۔ لڑائی میں صرف ایک دوسرے کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی اور دیگر رشتہ دار خواتین کو گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔ مرد تو صرف گالی کا چسکا لیتے ہیں کیوں کہ ان کے لیے تو کوئی گالی بنی ہی نہیں۔ غیرت کے تمام اصول بھی عورت کے ساتھ منسلک ہیں جن کی ہر شق دوسرے کی ضد ہے۔ عورت اپنے اختیار اور مرضی کا اظہار کرے تو غیرت کے قوانین لاگو ہو جاتے ہیں مگر جب خاندان کے مردوں کی زندگی کا مسئلہ ہو تو اسی عورت کو غیروں، دشمنوں اور ظالموں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
بات صرف برصغیر تک محدود نہیں اگر موجودہ ترقی یعنی تہذیب یافتہ ملکوں کا ماضی کھنگالیں تو وہاں بھی بہت سی غیر انسانی روایات ملیں گی مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم سائنسی دور میں بھی جنگل کے ماحول میں جی رہی ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے۔ جب ایک چھوٹے سے موبائل نے کیمرے، ٹی وی، ریڈیو اور اخبار کی حیثیت اختیار کر لی ہے تو ظالموں کو گواہی اور منظر نگاری کا خوف کیوں نہیں۔ قانون موجود ہے مگر آرام کر کر کے مفلوج ہو چکا ہے۔ اگر آج تک کسی وحشی کو جرم کی سزا ملی ہوتی تو شاید ایسے واقعات میں اضافہ نہ ہوتا۔
بڑے ممالک میں انٹرنیٹ کسی قاعدے کا پابند ہے مگر ہمارے ہاں گوشت کے رسیا حلال جانوروں کا صفایا کرنے کے بعد حرام کی طرف گامزن ہیں۔ بیچنے والوں نے طلب اور رسد کے فرق کو مٹانے کے لیے اخلاقیات کی دیواریں ملیامیٹ کر دی ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے نزدیک سبزی، دال کا کوئی معیار ہی نہیں۔ یہی طلب وحشت کی طرح انسانوں کے خون میں دوڑتی ہے تو اچھے، برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔
بات ہو رہی تھی پنچایت کی تو آج تک پنچایت نے ہر مسئلے، دشمنی، اخلاقی جرم کی سزا کا حقدار عورت کو اس لیے ٹھہرایا ہے کہ ہمارے ہاں یہ قول روایت بن چکا ہے کہ بیٹی کا کیا ہے، لڑکی ذات ہے، ویسے بھی بیاہ کر چلے جانا تھا، اگر بھائی باپ پر قربان ہو گئی تو کیا ہوا نسل تو لڑکے سے چلنی ہے۔ حالیہ کیس میں پنچایت نے زیادتی کرنے والے لڑکے کو کچھ نہیں کہا بلکہ انصاف کے ترازو کی برابری کے لیے دوسری سمت بھی ایک بے گناہ کو رکھ دیا۔ طاقت والے ہتھیار لے کر ظلم مکمل ہونے کی نگرانی کرتے رہے اور لڑکی کی چیخ و پکار سن کر عدل کرنے والوں کا سر فخر سے بلند ہوتا رہا کہ ان کے فرمان پر عمل کیا جا رہا ہے۔
کسی نے بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ایک لڑکے کے جرم کی سزا بے قصور لڑکی کو کیوں دی جا رہی ہے۔ دونوں لڑکے قصور وار ہوتے ہوئے بھی بری اور محفوظ۔ انہوں نے جرم بھی کیا اور اپنے سفلی جذبات کی تشفی بھی، پولیس بھی کیا کرے گی کچھ دنوں میں صلح صفائی ہو جائے گی۔ اس علاقے میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا۔ سنا ہے ان کی ماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے، انہوں نے برداشت کیا اب یہی درس آگے بڑھا رہی ہوں گی۔ پنچایت میں اس عورت کا کوئی کردار نہیں، جو ایسے پنچایتیوں کو جنم دیتی ہے، جو اس کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ مائیں بیٹیاں جنم دینا ترک کر دیں، دھرتی سے زندگی خفا ہو جائے، تخلیق کے دھارے خشک ہو جائیں، پھول کھلنے سے انکار کر دیں، چیخیں سنتی ہوائیں قہر برسانے لگیں، ظلم دیکھتے پرندے کوچ کر جائیں، معصوم ہنسی سے محروم در و دیوار قبرستان بن جائیں۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرے۔ پنچایتوں سے فیصلوں کا اختیار واپس لے۔ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹوں کے لیے ظلم پر خاموش رہ کر اس کا ساتھ دینا بند کر دیں ورنہ ظلم ہماری روحوں کو پامال کر دے گا اور ہم زندہ معاشرہ کہلانے کے حقدار نہیں رہیں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ