جے مائے تینوں کھیڑے پیارے
ڈولی پا دیویں ہور
بلھے شاہ
از، نصیر احمد
ادھر والی شاید تھوڑی زیادہ سعادت مند ہیں، ہمارے علاقے کی ہوتی تو کہتی ‘اماں تجھے کھیڑے اتنے ہی پیارے ہیں تو ڈولی میں خود کیوں نہیں بیٹھ جاتی’۔
مگر اس کے با وجود سعادت مند تو یہ بھی ہیں، تھوڑے بہت احتجاج کے بعد ڈولی میں بیٹھ جاتی ہیں۔
مگر والدین یا سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ بیٹی کو ذاتی ملکیت یا اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ یا اپنی دانائی کا سعادت مند فرماں بردار نہ سمجھیں، بَل کہ اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ بیٹی ایک فرد، انسان اور شہری ہے اور شادی اس کا جمہوری اور قانونی حق ہے۔
بیٹی یا بیٹا یا کوئی اور رشتہ، ایک فرد کا کسی دوسرے فرد پر قطعی اور مکمل اختیار عقل و خرد، جمہوری اصولوں، جمہوری قوانین، جمہوری اخلاقیات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جس کے نتیجے میں بدی ہی فروغ پاتی ہے۔
پاکستان میں انسانیت کے فروغ کے لیے رشتوں کی نوعیت میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور کچھ مثبت تبدیلیاں ہو بھی رہی ہیں، مگر بنیادی ڈھانچہ مکمل قبضے کا ہی ہے اور ان تبدیلیوں کے با وجود اس ڈھانچے میں تبدیلی نہیں آ رہی۔
مکمل قبضے پر وُزرائے اعظم کا اکثر یہی ردِ عمل ہوتا ہے:
میتھوں عذر نہ زور
اور جب وہ کچھ عذر کی گستاخی کر بیٹھیں تو سزا یافتہ ہو جاتے ہیں۔
اور پھر یہ ایک ماڈل سا بن جاتا ہے۔
وُزرائے اعظم کی بھی یہی آرزو ہوتی ہے کہ ان کے ما تحتوں میں انفرادیت،جمہوریت اور شہریت کی جھلک بھی نظر نہ آئے۔ اور ما تحتوں کا اپنے ما تحتوں کے ساتھ یہ رویہ ہوتا ہے اور اس رویے کی مالی، سیاسی اور معاشرتی کام یابی کے بعد والدین اور سر پرستوں کی ایک کثیر تعداد نے یہ رویہ اپنانا ہوتا ہے۔
مکمل قبضہ ممکن نہیں ہوتا اگر چِہ چینی اس معاملے میں کافی کام یاب ہو گئے ہیں۔ لیکن مکمل قبضے کے سلسلے میں ہر کام یابی انسانی زندگی کا معیار بد تر کر دیتی ہے۔ بے چارے یوئیغوروں کے حالات سے ہم آگاہ ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ آنکھوں میں بھی اگر ترک یا دین کی جھلک نظر آ جائے تو حکام کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جھلک بھی آنکھوں سے نوچ لیں۔
فرد کی ترقی کا ایک گہرا تعلق اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کی افزائش سے ہے اور اگر زندگی کی اس اہم معاملے میں اسے فیصلے کا اختیار نہ ہو تو پھر اس نے ترقی کی بھی تو اس کے پیچھے انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیاں ہوں گی اور بہت ساروں کے فیصلے چھین لیے جائیں گے۔
اپنی اولاد کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں کو کچلنے کو محبت اپنے جیسے رشتہ داروں کے درمیان ہی کہا جا سکتا ہے، لیکن سچ کا ظہور ہو جاتا ہے اور جب یہ ظہور ہو گا تو داناؤں کے فیصلوں میں محبت دیکھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اور اگر ایک دوسرے میں جڑے کھبے ہونے کی وجہ سے عدم کو وجود ہی کہیں گے تو بھی تضادات نمایاں ہو جائیں گے۔
کہ اگر گدھے کی طرح پیٹتا تھا، تو کیا ہوا، بھلا تو ہمارا ہی ہوا ناں، چپراسی تو بن ہی گئے ہیں ناں۔
اب شہر کے سب سے بڑے رئیس چپراسی ہوں یا دفتر کے باہر کھڑے غریب چپراسی، صلاحیتوں کی افزائش تو رک ہی جاتی ہے اور مسائل میں یہ رکی ہوئی صلاحیتوں کی افزائش نظر آنے لگتی ہے۔
جو فرد بھی آپ کی نگرانی میں ہے اس کے فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کی افزائش محبت کا تقاضا بھی ہے اور شہری ذمہ داری بھی۔ اور اس کے حقوق کا تحفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اب منافقانہ تالیوں کے لیے یہ مختصر سی زندگی کسی کا فرعون بن کے گزارنے سے کیا ملے گا؟
بہ ہر حال آج کل فرعونیت بہت زیادہ مقبول ہو گئی ہے۔ جہاں والدین فیصلوں کی صلاحیت اور حقوق کا احترام کرتے ہیں تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کہ نظام کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ فیصلوں کے لیے نا ممکن ہو گیا ہے کہ وہ جمہوریت اور شہریت کا رخ کریں۔ زندگی بس دوسروں کے احکامات سے مطابقت سی بن گئی ہے اور جہاں اپنی چلتی ہے، وہاں زیادہ تر کسی اور کی نہیں چلتی۔
لیکن معاشرہ جیسا بھی ہو، جن سے محبت ہو ان سے ان کی صلاحیتیں چھیننے سے تو کوئی چیز بہتر نہیں ہو گی۔