پارلیمان میں شلواریں اترنے کی کہانی
تنویر احمد
1919 میں آئینی اصلاحات کے تحت جب پنجاب کی پہلی قانون ساز کونسل قائم ہوئی تو اس کے منتخب شدہ رکن میاں فضل حسین کو گورنر نے وزارتی ذمہ داریاں تفویض کیں۔ میاں صاحب کے اقدامات سے ہندو ارکین اکثر نالاں رہتے تھے تو مسلمان اراکین میاں صاحب کے اقدامات کے لیے ان کی تائید و حمایت میں ہمہ وقت سرگرم رہتے تاہم لاہور اور ساہیوال سے منتخب ہونے والے محرم علی چشتی اور پیر محمد حسین شاہ ان کی راہ میں اکثر اوقات روڑے اٹکاتے رہتے تھے۔ میاں صاحب کے زیر تحت ایک محکمے کے بجٹ کی منظوری درپیش ہوئی تو اس میں تخفیف کی ترمیم کرنے والوں میں پیر حسین شاہ پیش پیش تھے۔
میاں فضل حسین ہندوؤں اراکین کونسل کی مخالفت سے خائف نہ تھے لیکن کسی مسلمان رکن کی مخالفت بہت چبھتی تھی۔ سید نوراحمد اپنی تصنیف ’’مارشل لاء سے مارشل لاء تک‘‘میں رقم کرتے ہیں کہ میاں صاحب نے اپنے نوجوان سیاسی چیلوں کو اشارہ کیا کہ اگر پیر حسین شاہ کو بجٹ میں تخفیف کی ترمیم سے باز رکھے جائے تو بہت اچھاہو گا۔
چند نوجوان اراکین کونسل جو مسلمان طبقے سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا۔ میاں احمد یار دولتانہ (میاں ممتاز دولتانہ کے والد) پیر حسین شاہ کے پاس پہنچے اور ان کے قدموں میں اپنی پگڑی اتار کر رکھ دی اور کہا اس پگڑی کی لاج رکھتے ہوئے اس ترمیم کو پیش کرنے سے باز آجائیں۔
پیر صاحب انتہائی ضدی طبیعت کے تھے انہوں نے پگڑی اٹھا کر دولتانہ کے سر پر رکھی اور کہا آپ مجھے مجبور نہ کریں۔ میں ترمیم ضرور پیش کروں گا اور میاں فضل حسین کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ وہ تا دیر یاد رکھے گا۔ دولتانہ صا حب واپس چلے آئے۔ اگلے دن کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ پیر حسین شاہ اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتااور شلوار پہنے اور پگڑی سر پر رکھے اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔جب ان کی ترمیم پیش کرنے کی باری آئی تو وہ اپنی نشست پر تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
ان کے ساتھ والی نشست پر ملتان سے منتخب ہونے والے نواب عاشق حسین بیٹھتے تھے اور وہ میاں فضل حسین کے حامیوں میں شمار ہوتے تھے۔ نواب صاحب نے دیکھا پیر صاحب جب اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تو ان کا ازار بند لٹک رہا ہے۔ نواب عاشق حسین نے احتیاط سے جھک کر اور ڈیسک کی آڑ میں ہاتھ نیچا کر کے پیر صاحب کا ازار بند زور سے کھینچ لیا۔ادھر پیر صاحب کی زبان سے پہلا لفاظ نکلا، جناب والا! اور ادھر ان کی شلوار کھل گئی۔ وہ شلوار کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر غڑاپ سے اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔
لوگ حیران تھے کہ انہیں کیا ہوا۔بہرحال اسپیکر نے چند لمحے ان کی جناب دیکھا اور پھر اگلے ممبر کا نام تقریر کے لیے پکارا۔ پیر صاحب نے جلدی جلدی اپنے ازار بند کو قابو میں کر کے باندھا اور جب دوسرا ممبر تقریر کر چکا تو تقریر کے لیے دوبارہ کھڑے ہو گئے تاہم اسپیکر نے انہیں دوبارہ ترمیم پیش کرنے سے منع کر دیا۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد پیر صاحب نے بہت غل غپاڑہ مچایا اور نواب عاشق حسین کا گالیاں دیں تو لوگوں کو پتا چلا کہ کہ پیر صاحب کو ان کے ازار بند کے ذریعے ’’ زبان بند کیا گیا تھا۔
ہماری پارلیمان میں زبان بندی کے لیے ابھی تک کسی کو یہ یارا تو نہ ہوا کہ کسی دوسرے رکن کے ازار بند کو کھینچ کر اسے زبان بندی پر مجبور کر ے لیکن گروہی، سیاسی اور ذاتی مفادات زبانوں پر کچھ یوں قفل ڈال دیتے ہیں کہ ہر نوع کی ترمیم کے حق میں بلا چوں و چراں ووٹ ڈال دیا جاتا ہے۔اب اسی پارلیمان سے جب الیکشن بل 2017کو پاس کروایا گیا تو حکومتی بنچوں پر براجمان ڈیڑھ سے زائد اراکین اسمبلی میں سے کوئی ایک رجل رشید بھی نہ اٹھا کہ جو ببانگ دہل کہہ سکے کہ جناب والا! اس نوع کی ترمیم سے آپ کون سا ملک کی خدمت کرنے جا رہے ہیں۔
مرے پر سو درے کہ اس بل میں ختم نبوت کی حلف نامے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے خواہ مخواہ اس نانی کی طرح بدنامی مول لی جس نے پیرانہ سالی میں خصم کرلیاتھا ۔ یہ اسمبلیاں بلاشبہ عوام کی منتخب کردہ ہیں لیکن انہیں حقیقی معنوں میں پاکستان کی اجتماعی دانش کر مظہر بھی ہونا چاہیے۔ ان اراکین پارلیمان کو ڈھور ڈنگروں کی طرح نظر آنا چاہیے جنہیں جہاں ہانکا جائے وہ اسی جانب چل پڑیں؟ یا انہیں پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش کے نقوش اپنے کردار و عمل سے جمانے چاہئیں۔ اب میاں نواز شریف اس روئے زمین پر وہ اکیلا بزر جمہر تو نہیں بچا کہ جس کے لیے الیکشن بل میں تبدیلی کا قصد کچھ ایسا کیا جائے کہ راتوں رات بل بھی ڈراٖفٹ ہو جائیں اور انہیں منظور کرانے کے لیے اسمبلیوں کے اجلاس بھی ہنگامی بنیادوں پر منعقد کر لیے جائیں۔
ساہیوال کے پیر حسین شاہ کو ترمیم پیش کرنے سے باز رکھنے کے لیے نواب عاشق حسین نے ان کا ازار بند کھینچ لیا تھا یہاں تو حکومتی بنچوں پر براجمان اراکین نے اپنی شلواریں ہی اتار کر کندھے پر ڈال دیں وگرنہ اس ننگ جمہوریت اقدام کے لیے کسی رکن پارلیمان کے ضمیر پر تو بوجھ ہوتا۔ پارلیمان اگر اس نوع کے اقدامات اٹھانے کی روش پر کاربند رہی جس میں شخصی مفادات کی آبیاری مطمع نظر ہو تو پھر پارلیمان کے اراکین کے اخلاقی لبادے کی شلواریں ڈھیلی ہوتی رہیں گی۔
اس پارلیمان کو نواز شریف کے حق صدارت کے لیے جس طرح بے کل دیکھا کاش وہ اس ملک کے عوام کو لاحق مسائل کے حل کے لیے بھی اس طرح مضطرب ہوتی تو کچھ بات بنتی نظر آتی۔ہمارے ملک میں موجود وہ غیر مرئی قوتیں جو اسٹیبلشمنٹ کے نام سے موسوم کی جاتی ہیں بلاشبہ جمہوریت پر بار بار حملہ آور ہو کر سویلین حکومتوں کو بے دست و پا کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں لیکن خود پارلیمان کی کارکردگی کیا ہے؟ جو ان قوتوں کے آگے مزاحم ہو کر سویلین بالادستی کو یقینی بنائیں۔ اس الیکشن بل کو پرویز مشرف کی دور آمریت کا ورثہ قرار دے کر اسے چھٹکارا حاصل کرنے کا اعلان حکومتی بنچوں کی جانب سے کیا گیا۔
دور آمریت کی تو بہت سی نشانیاں ہمارے آئین میں موجود ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر 1973 کے آئین کی اصل روح کو بحال نہیں کیا جا سکتا اور اگر دور آمریت کی باقیات کا خاتمہ ہی مقصود و مطلوب ہے تو بسم اللہ کیجئے سب سے پہلے ضیاالحق کی باقیات کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر پارلیمان کے قلم سے شخصی مفادات کی شلوار میں ازار بند ڈالتے رہیے چاہے اس میں آپ کی اپنی ہی شلوارنیچے گر کر آپ کے ننگے پن کو سب پر آشکار نہ کردے۔