پڑھنا لکھنا ضروری ہے؟
از، آصف علی لاشاری
انسان اپنے احساسات کو تحریری شکل دے کر لوگوں کے ذہن میں منتقل کرسکتا ہے جس سے ایک طرف وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک بن جاتا ہے اور دوسری طرف پڑھنے والوں کو مسحور کرنے کے ساتھ ساتھ نئی طرز پر سوچنے میں رہنمائی بھی مہیا کرتا ہے۔ جب بھی کوئی اپنے احساسات، تاثرات کو دستاویزات کی صورت میں کاغذ پر رقم کرتا ہے تو تحریر کی اہمیت مسلمہ ہو جاتی ہے۔ جبکہ وہ شخص جو محسوس کرتا ہے لیکن اپنے احساسات کے اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ایسے ہی ہے جیسے اپنے حلق میں اٹکی ہوئی کسی چیز کو نکالنے کے کوشش کر رہا ہو اور وہ گلے سے نیچے اترتی جا رہی ہو۔ یہ ایک ذہنی عذاب ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستانی معاشرے پر سیاسی اور معاشی انتشار کے نشانات بہت واضح ہیں۔ اس دور میں کتاب پڑھنا اور ادب کے زندہ مظاہر میں شرکت کرنا بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ معیاری کتابیں کم شائع ہوتی ہیں اور اس تعداد سے بھی بہت کم فروخت ہوتی ہیں۔ کتابوں کی بڑی بڑی دکانیں بند ہو رہی ہیں۔ ایک دور تھا جب بالخصوص لاہور کے چائے خانوں، باغات اور ایوانوں میں ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں جہاں بڑے بڑے دانشور اور صحافی، سکالرز شامل ہوتے تھے۔ لوگ ان کی باتوں سے محظوظ ہوتے تھے، ساتھ ہی کسی نئی کتاب کی رونمائی ہوتی تھی اور نئے ادیب کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی۔ اور کتب پر تبصرہ، تجزیہ اور آراء کا اظہار بھی کیا جاتا تھا۔ عوام الناس میں بھی کتب بینی کا رجحان زیادہ تھا۔
یہ محفلیں تو ماند پڑی ہی ہیں، ان کے علاوہ ڈائری لکھنے کا شوق بھی معدوم ہو چکا ہے۔ پہلے لوگ ہر سال کے آغاز پر ڈائری تحفہ میں دیتے تھے۔ تحفہ لیںے والے اس کی اہمیت سے واقف ہوتے ہوئے اپنے احساسات اور واقعات کو اپنے قلم کی طاقت سے اس کے سپرد کرتے تھے۔ لوگ شوق سے لکھتے تھے۔ تصور کریں اگر ادیب یا شاعر اپنے احساسات کا اظہار لکھ کر نہ کرتے تو شاید آج کتاب کا وجود ہی نہ ہوتا اور کتنا بڑا خزانہ جنم ہی نہ لے پاتا۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے دور میں شوق سے لکھنے کا کام بھی ماند پڑ گیا ہے۔ اس کے برعکس پیشہ ور لکھاری ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے استعمال سے لکھنے کا کام نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ اور ان حالات میں جو لوگ آج بھی اس شوق کو پال رکھے ہوئے ہیں ان کے لیے داد جیسے الفاظ بہت چھوٹے ہیں۔
ادب اچھا یا برا ہو سکتا ہے۔ کسی بھی تخلیق کا تعلق ایک خاص دور کے واقعات اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ جب کبھی بھی دنیا میں جغرافیائی، معاشرتی، سماجی یا سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ادیب اور ادب کا پیدا ہونا نا گزیر رہا یے۔ پچھلے سو سال کا اگر جائزہ لیا جائے تو عالمی ادیبوں میں فرانز کافکا، میکسم گورکی، البرٹ کامیو، میلان کنڈیرا، گیبریل گارشیا مارکیز، میخائل چیخوف، ژاں پال سارتر بڑے ناموں میں شامل ہیں۔ برصغیر کے تناظر میں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، قراۃ العین حیدر، امرتا پریتم، رابندر ناتھ ٹیگور اور منشی پریم چند جیسے نام نمایاں ہیں۔
ان تمام ہی لوگوں نے اپنے اپنے دور کے معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی مسائل اور حالات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ بے شمار اور بھی نام ہیں جن کو کم علمی کی بناء پر ظاہر کرنے سے قاصر رہا ہوں۔ پڑھنا لکھنا آپ کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کی ذہنی صلاحتیوں کو سنوار کر اس قابل بناتا ہے کہ آپ دنیا کو تسخیر کر سکیں۔ کتاب زندگی کی بدصورتیوں سے پردہ اٹھاتی اور حقیقت کا منور چہرہ قاری کو دکھاتی ہے۔ کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن سے آپ کا ایک تعلق بن جاتا ہے۔ ان کا بار بار مطالعہ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ تنہائی کی بہترین ساتھی اور دوست کتابیں ہی ہوتی ہیں۔
ادیب اور قاری کا رشتہ صرف کہانیوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے تعلق کو ایک خاص دور میں جیتے ہیں۔ کوئی بھی طاقتور ادیب اپنی کہانی میں قاری کو پہلے پہل اپنے پیچھے اور پھر ساتھ لے کر چلتا ہے اور ایک خاص مقام پر قاری کو آزاد چھوڑ دیتا ہے اور خود اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتا ہے۔ تخلیق کی دنیا ان دونوں کے ایسے رشتے کو اور بھی مضبوط کر دیتی ہے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے مگر جس بات سے تشویش ہے وہ یہ ہے کہ جدید دور میں یہ سلسلہ کہیں ختم نہ ہو جائے۔ لکھنا اور پڑھنا جس قدر دل فریب اور سحرانگیز سرگرمی ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔ ایک ایسا ماحول ہو جس میں لکھنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں اور پڑھنے والے بھی۔ لوگ سوچیں، سمجھیں، محسوس کریں، گفتگو کریں، مکالمہ کریں اور پرمسرت زندگیاں گزاریں۔ زمانے کی بھیڑ میں وہ تھوڑی سی جگہ اپنے لیے بچا کے رکھیں جس میں وہ سانس لے سکیں۔ ادب سے رشتہ ایسی ہی جگہ مہیا کرتا ہے جو آپ کو غیر محسوس طریقے سے معاشرتی کسمساہٹ سے بھی آگاہ کر رہا ہوتا ہے اور آپ کے تخیل کی آبیاری بھی کرتا رہتا ہے۔ مجھے ڈر رہتا ہے کہ ڈیجیٹل دور کہیں ہمیں لکھنے پڑھنے سے اور نہ دور لے جائے اور ایسا نہ ہو کہ لوگوں کا تخیل ہی بنجر ہو جائے۔ ادب کی ہوا چلتی رہے تاکہ تخیل کے باغ یونہی لہلاتے رہیں۔
کسی بھی ملک، قوم کے بہترین اثاثے اس کے کتب خانے ہوتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی اقدامات کی ضرورت ہے اور انفرادی سطح پر تو یہ ضرورت ہنگامی نوعیت اختیار کر چکی ہے۔ ہماری قومی زبان میں ترجمے کو فروغ دینا چاہیے۔ دوسرے ممالک کے ادب کو اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ہماری زبان کو فروغ ملے گا بلکہ ہماری نئی نسل بھی دنیا بھر کے ادب سے مستفید ہو سکے گی۔ اگر ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس حقیقت سے صرفِ نظر کریں گے تو کوئی شک نہیں ہماری آنے والی نسلوں کا کتاب سے تعلق مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔