پارٹی سربراہ اور پارلیمانی سربراہ پر وکلاء کا فہم
از، یاسر چٹھہ
پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی وزیر اعلیٰ پنجاب کے 22 جولائی 2020 کے رن آف الیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے سیاسی بحران کے ضمن پر معروف قانون دان ریما عمر نے اپنے ٹویٹر پروفائل پر اپنی رائے کا تھریڈ لکھا۔ یہاں ہم اس تھریڈ کا ترجمہ پیش کرتے ہیں۔
یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے کہ بہت سارے وکلاء آرٹیکل 63A میں “پارلیمانی پارٹی” کی ہدایات کو پارٹی سربراہ کے بر عکس “پارلیمانی پارٹی کے رہ نما” کی ہدایات کے طور پر بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے متعدد فیصلوں میں اور چیزیں کہی ہیں:
مثال کے طور پر، PLD 2018 SC 97 (جسٹس عمر عطاء بندیال اس بنچ میں بہ طور ایک رکن شامل تھے) دیکھیے، جہاں سپریم کورٹ نے انحراف کے ڈیکلریشن کو برقرار رکھنے سے انکار کر دیا تھا، کیوں کہ ارکان کو ووٹنگ سے روکنے کے لیے “پارٹی سربراہ کی کوئی مخصوص ہدایت” موجود نہیں تھی۔
نوٹ: عدالت واضح طور پر “پارٹی سربراہ کی مخصوص ہدایت” (direction of party head) کا استعمال کرتی ہے۔
پی ایل ڈی 2018 SC 366 بھی دیکھیے، جہاں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی سربراہ کے عہدے پر فائز رہنے سے روک دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے “پارٹی سربراہ” کے عہدے کو بہت اہمیت دی اور کہا کہ پارٹی سربراہ مختلف اہم کام انجام دیتا ہے، بہ شمول ان کا “پارلیمانی پارٹی کا لیڈر ہونے”کے۔
اسی فیصلے میں، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سربراہ کو پارٹی میں “فیصلہ کُن حیثیت” حاصل ہے، بہ شُمول پارلیمانی پارٹی جس پر وہ “بَہ راہِ راست کنٹرول اور نگرانی کرتے ہیں۔”
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ رائے رکھنے والا بنچ جسٹس ثاقب نثار، جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تھا۔
دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 63A کی تشریح کرنے والا سپریم کورٹ مختصر حکم نامہ بھی دل چسپی سے دیکھنے لائق ہے۔
سپریم کورٹ کا استدلال افراد کو ایک طرف رکھتے ہوئے “سیاسی جماعتوں” کی مرضی کو فوقیت دینے پر مبنی ہے۔ عدالت انحراف کے ذریعے “سیاسی جماعتوں” اور جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کے خلاف بھی خبردار کرتی ہے۔
سو، سپریم کورٹ کے مطابق ایم پی اے/ایم این اے کے ووٹ سیاسی جماعت کی مقدس امانت ہیں۔
ایسے اہم اور بنیادی نوعیت کے مسائل میں پارٹی لائن کا فیصلہ کرنے کے معاملات میں پارٹی سربراہ پر “پارلیمانی پارٹی کے لیڈر” کو ترجیح دینا سپریم کورٹ کے اپنے استدلال سے مطابقت نہیں رکھتا۔
(یہاں ہماری جانب سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے رولز آف بزنس میں پارلیمانی پارٹی یا پارلیمانی لیڈر کے عُہدے کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی تعریف آئین میں موجود ہے، مگر کسی اسمبلی یا قانون ساز ایوان میں کسی بھی پارلیمانی لیڈر کا کوئی قانونی عہدہ موجود ہی نہیں ہے۔ یہ رسمی غیر تحریری، رواجی عہدہ ہے۔ از، رشید چودھری)
تاہم، آئینی آرٹیکل 63A خود مبہم ہے، اور اب، یقیناً، سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ “پارلیمانی پارٹی” کی ہدایات کی تشریح کیسے کی جانی چاہیے۔
البتہ، آئیے یہ نہ بھولیں کہ سپریم کورٹ نے یہ گڑ بڑ سب سے پہلے آئین کو دوبارہ لکھ کر اور اس میں مداخلت کر کے پیدا کی جو ایک مکمل سیاسی معاملہ تھا۔
ریما عمر، لاہور سے تعلق رکھنے والی پاکستانی وکیل اور انسانی حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) کی جنوبی ایشیاء میں قانونی مشیر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے سنہ 2002 میں او لیول مکمل کیا اور سنہ 2004 میں اے لیول کے قانون کے امتحان میں عالمی اعزاز حاصل کیا۔ انھوں نے 2009 میں لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) سے بے اے ایل ایل بی کیا، جہاں انھیں بہترین طالب علم کے طور پور پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ بعد ازاں، انھوں نے سنہ 2010 میں یونی ورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ سے پبلک انٹرنیشنل لاء میں سپیلائزیشن کے ساتھ ایل ایل ایم کی