پشتون قوم کی ترقی پسندی اور مذہبی جماعتیں
از، نقیب زیب کاکڑ
ریاست یا ریاست کے کسی مخصوص خطے میں ترقی یا ترقی پسند سوچ تب پروان چڑھتی ہے جب وہاں کی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آ کر ان علاقوں میں اصلاحات کریں۔ خصوصاً وہاں کے تعلیمی اداروں میں ایسا درسی نظام متعارف کرائیں جو اس خطے اور ان انسانوں کے مفاد و فلاح میں کار گر ثابت ہو۔ پشتونوں کی تباہی شروع ہی ان ریاستی اداروں کی بنائی ہوئی پارٹیوں سے ہوئی۔ آج پشتونوں کو تشدد پسند کا الزام پشتونوں کی وجہ سے، نہیں بلکہ ریاست کی پالسیوں کی وجہ سے ملا ہے۔
ان ریاستی پالسیوں کو ریاست نے یہاں اپنی بنائی ہوئی مذہبی سیاسی پارٹیوں سے پشتونوں پر مسلط کیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہاں ترقی پسند سیاسی جماعتوں کو کیوں منتخب نہیں کیا جاتا تھا؟
واضح رہے یہاں ترقی پسند سیاسی جماعتیں جن میں ایک عرصے تک ہم PPP کو شمار کر سکتے تھے وہ بھی ان پالیسیوں کا حصہ رہی ہے؛ کیونکہ پاکستان کے باقی خطوں اور پشتون علاقوں کے تعلیمی اور معاشرتی نظام میں یہی فرق تھا کہ یہاں پُر تشدد بیانیہ ہر محفل اور ہر تعلیمی ادارے میں فخر سے زیر بحث تھا۔ اس کے سوا ایسی پارٹیاں یہاں ترقی پسند سوچ کے حامل افراد نہیں چنتی تھیں بلکہ جاگیردارانہ نظام کی باقیات خان سردار نواب کے سر سہرا باندھ دیتی تھیں۔ یہ افراد بھی تو برٹش راج کے بعد ریاست پر اعتماد کرنے لگے تھے سوائے چند ایک کے۔
پشتونوں کے لیے دوسرا آپشن قوم پرست پارٹیاں تھیں جن میں عوامی نیشنل پارٹی اور اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی پشتونوں میں مقبول پارٹیاں تھیں اور تا حال ہیں۔ ان پارٹیوں کے خلاف ریاست اور ان کے تشدد پسند بیانیے کے حامل اداروں نے بھرپور طریقے سے منفی پروپیگینڈہ کیا۔ ان جماعتوں کے خلاف کفر کے فتوے اپنی پارٹیوں سے جاری کرائے جن میں جمیعت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی سر فہرست سیاسی جماعتیں تھیں اور دوسری طرف ان مذہبی جماعتوں کو ریاستی اداروں کی طرف سے الیکشن میں بھر پور حمایت حاصل رہی ہے۔
جب یہ جماعتیں یہاں کی مقتدرہ بن جاتیں تو جو رہی سہی کسر تھی وہ یہ جماعتیں پورا کر لیتیں۔ انہوں نے علاقے کی فلاح و بہبود کے لیے ملنے والے فنڈز کسی فلاحی پروجیکٹ پر خرچ کرنے کے بجائے یہاں تشدد پسند سوچ پروان چڑھانے کے لیے بننے والے مدارس اور دوسری سرگرمیوں پر خرچ کیے؛ یہاں تک کہ افغانستان بھیجے جانے والے تشدد پسند ان افراد کے فنڈز سے افغانستان جہاد کے لیے جاتےتھے۔
یہ لوگ مختلف طریقوں سے اس سوچ کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کرتےتھے۔ ان کے جلسے جلوسوں میں سماجی فلاح کے مطالبات کے بجائے افغانستان کی تباہی اور وہاں لڑنے والے شدت پسندوں کی کامیابی کے اور افغانستان کی رہی سہی حکومت کے لیے کی تباہی کے لیے اجتماعی دعا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو اس شدت پسندی کے حقیقی ہونے کا احساس دلا دیں۔
ایسے ماحول میں امیر، مڈل کلاس اور لوئر کلاس تینوں اس شدت پسند ی کا ایندھن بننے لگے۔ ہائر کلاس ان میں چندے کی صورت حصہ ڈالنے لگے، اور لوئر کلاس ان مذہبی جماعتوں کے پروپیگینڈے کا حصہ بن گئے۔ لوئر کلاس کے غریب جو غربت سے تنگ آجاتے تھے وہ اس شدت پسندی کا باقاعدہ حصہ بن کر افغانستان جا کر قتل کرتے یا قتل ہو جاتے تھے۔
اس دوران جن لوگوں نے معاشرے کو اعتدال میں رکھنے کی بھر پور کوشش کی وہ قوم پرست پارٹیاں اور اس کے کارکنان تھے۔ وہ ترقی پسند سوچ کے حامل تھے وہ اگر ان مذہبی جماعتوں سے یہاں کا اختیار عملی طور پر چھین نہیں سکے جس کی وجوہات ریاستی ادارے اور اس کی پالیسیاں تھیں۔ لیکن ان قوم پرست جماعتوں نے عوام کو ترقی پسند سوچ دی ان جماعتوں نے پشتونوں کی شدت پسندوں والی پہچان ختم کرائی۔ حالانکہ ریاستی ادارے آج بھی پشتونوں کو اپنی دی ہوئی شدت پسندی کے تحفےسے طعنے دیتی ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ ادراے پی ٹی ایم کو شدت پسندوں کا تحفظ کرنے والی تنظیم کہتے ہیں۔
حقیقت سب پر عیاں ہے کہ شدت پسند کو ن ہے۔ پشتون تاریخی طور بلا مبالغہ جنگجُو رہے ہیں جو کئی اور مختلف اقوام کے ارتقائی سفر کا بھی حصہ ہے لیکن ان کی ان جنگجویانہ صلاحیتوں کو ریاست نے اپنے نا روا مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ آج کا پشتون اپنے لیے اور دوسری اقوام کے لیے فلاح چاہتا ہے۔ آج کے پشتون کو غیرت معجون اور جہالت کے طعنوں سے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
مزید ملاحظہ کیجیے: پشتون ہوں، سٹریٹجک ڈیپتھ کا ایندھن ہوں
نقیب زیب کاکڑ کی ایک روزن پر شائع شدہ دیگر تحریریں
آج بھی ان مذہبی شدت پسندوں کی سیاسی جماعتیں مختلف ناموں سے وجود رکھتی ہیں لیکن آج وہ اس زور شور سے شدت پسندی کی حمایت نہیں کرسکتیں۔ ان جماعتوں نے پشتون کی پہچان کو معیشت، ثقافت اور جغرافیے کو نقصان پہنچایا اس لیے آج ایک عام پشتون ترقی پسند قوم پرست جماعت کو ہر صورت زیادہ ترجیح دیتا ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.