سڑک پر تنہا از، پائلو کوئیلو
ترجمہ از، غلام شبیر
زندگی ایک سائیکل ریس کی طرح ہے، جس کا مقصد ہمارے شخصی رول ماڈل کی تکمیل ہے، جو قدیم کیمیا گر کے مطابق زمین پر ہمارا حقیقی مشن ہے۔ ہم تمام اکٹھے روانہ ہوتے ہیں۔ دوستی اور گہرے شغفوں کا باہم لین دین کرتے ہیں؛ لیکن جُوں ہی ریس آگے بڑھتی ہے، وہ ابتدائی خوشی حقیقی چیلنجز کا روپ دھار لیتی ہے، جس سے تھکاوٹ، بوریت، اور ہماری اپنی لیاقتوں سے متعلق شک و شکوک و شُبہات جنم لیتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ چند ایک دوست جو اپنے دلوں میں مقابلے بازی کا رحجان رکھتے ہیں، وہ تو پہلے ہی سے ابتدائی خوشی سے محروم ہو چکے ہیں۔ وہ اب بھی سائیکلنگ کر رہے ہیں، صرف اس وجہ سے کہ وہ سڑک کے درمیان میں نہیں رک سکتے۔
ان میں سے زیادہ سے زیادہ مدد گار گاڑی کے ساتھ اب بھی پیڈل دبا رہے ہیں۔ اپنی روزانہ کی عادتوں کی بناء پر بھی جانے جاتے ہیں؛ یعنی آپس میں باتیں کرتے ہوئے، اپنے فرائض کو پورا کرتے ہوئے۔ لیکن اس کی وجہ سے سڑک کی خوب صورتیوں اور چیلنجز کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں۔ ہم انجامِ کار ان کو اپنے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
پھر تنہائی کے ساتھ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آتے ہیں، سڑک کے نا معلوم موڑوں میں اور ساتھ ساتھ اپنی بائسِیکل کے ساتھ میکانیاتی مسائل لیے ہوئے۔
ایسی سٹیج پر کہ چند ایک مرتبہ گرنے کی اذیت کے بعد جب کوئی بھی ہمارے نزدیک ہماری مدد کرنے والا نہیں ہوتا، ہم خود کو کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ ایسی اذیت بھر پُور کوشش کے نتیجے میں پیش آئی ہے۔
جی ہاں، ایسا ہی ہے۔ ایسی بات بھی نہیں ہے کہ ہم کوشش کرنا چھوڑ دیں۔ فادر ایلن جانز کہتے ہیں کہ (ابتدائی خوشی کی راہ میں) ان تمام رکاوٹوں پر قابو پانے کے لے ہمیں چار دکھائی نہ دینے والی قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے: محبت، موت، طاقت اور وقت۔
ہمیں محبت کرنی چاہیے، وہ اس لیے کہ ہم بَہ ذاتِ خود خدا کے محبوب ہیں۔ ہمیں موت سے آگاہ رہنا چاہیے وہ اس لے تا کِہ ہم زندگی کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔
ہمیں زندگی میں نشو و نما پانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، لیکن خود کو ایسا نہ بننے دیں کہ ہم طاقت کے نشے میں آ جائیں جو ہماری کوشش کا نتیجہ ہے، وہ اس لیے کہ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ایسی طاقت بے کار ہے۔
آخر میں ہمیں اپنی اس روح کو قبول کرنا چاہیے۔ حالاں کہ روح ہماری ابدی ہے۔ اس لمحہ ہم وقت کے جالے میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کے تمام موقعوں اور پا بندیوں کے ساتھ۔ اس لیے ہمیں اپنی تنہا بائسیکل ریس میں ہمیں ایسا رویہ اپنانا چاہیے جیسے وقت زندہ ہے اور ہر وہ کام کرنا چاہیے جسے ہمیں وقت کے ہر سیکنڈ میں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس دوران جب ضروری ہو تو ٹھہراؤ کریں لیکن خدائی نور کی طرف سائیکلنگ جاری رکھنی چاہیے اور پریشانی کے کسی بھی لمحہ میں اس کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔
ان چار قوتوں کو مسائل سمجھ کر حل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ کسی بھی کے قابو میں نہیں۔ ہمیں دلی طور پر ان کو تسلیم کرنا چاہیے اور جو ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے اس کو سکھانے دیں۔
ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو ایک وقت میں اتنی وسیع ہے کہ ہمیں ہر طرف سے گھیر لے اور اتنی چھوٹی ہے کہ ہمارے دل میں سما جائے۔ انسان کی روح میں دنیا کی روح ہے، خاموشی کی دانش ہے۔
جیسے جیسے ہم اپنے مقصد کی طرف پیڈل دبائیں، ہمیں خود سے پوچھنے کا اشارہ سمجھنا چاہیے: آج کے دن میں کیا خوب صورت رہا؟ سورج چمک رہا ہو، لیکن اگر ایسا ہو کہ بارش ہونے لگے، تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس کا مطلب ہے کہ بادل جلد ہی غائب ہو جائیں گے۔
بادل چاہے غائب ہو جاتے ہیں، لیکن سورج ویسا ہی چمکتا ہوا رہتا ہے، اور کبھی بھی دور کہیں نہیں جاتا۔ تنہائی کے لمحات میں، یہ اہم ہے کہ اس سارے منظر کو یاد رکھیں۔
جب چیزیں مشکل ہو جائیں، آئیں یہ بات مت بھولیں کہ آزادانہ ریس، رنگ، سماجی صورتِ حال، عقائد یا کلچر بارے ہر آدمی ایک ہی طرح کا مشاہدہ رکھتا ہے۔
ایک پیاری دعا جو مصری صوفی استاد Dhu Nun (d.ad 861) نے لکھی جو بڑی نفاست سے ایسے رویے کو بیان کرتی ہے جسے کسی بھی ایسے وقت میں اپنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے: اے خدا، جب میں جان وروں کی آواز، درختوں کی آواز، پانی کی روانی یا بادل کے گرجنے کی گڑ گڑاہٹ کی آواز سنتا ہوں، تو میں ان سب میں تیری ہم آہنگی کا اظہار دیکھتا ہوں؛ میں محسوس کرتا ہوں کہ تو بلند و بَر تر قوت، بلند عرفان، بلند حکمت، بلند و بر تَر انصاف ہے۔
اے خدا، میں تمھیں ان تمام مشکلات میں پہنچانتا ہوں جن کا میں مشاہدہ کر رہا ہوں۔ اے خدا، تیری طمانیت میری طمانیت ہو جائے، میں تمھاری خوشی ہو جاؤں، ایسی خوشی جو ایک باپ اپنے بچے میں پاتا ہے، اور مجھے طمانیت اور پختہ ارادے کے ساتھ خود کو یاد رکھنے کی توفیق دے، خصوصاََ اس حالت میں جب میرے لیے یہ کہنا مشکل ہو: میں تم سے محبت کرتا۔