پی ڈی ایم کے استعفیٰ جات… are you kidding guys
از، یاسر چٹھہ
استعفیٰ جات دینے کا موجودہ (کم از کم موجودہ) وقتی تناظر میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینٹ کے الیکشن میں سینٹ چیئرمین پر عدمِ اعتماد کے وقت کی ‘زور دار حرکات’ سے ‘اُنھیں باز رکھنے کے لیے’ پنجابی کے بلیغ لفظ کے مطابق استعفیٰ ‘اُگری’ ہوئی ہے، ‘مارنے’ والی شئے نہیں۔
استعفیٰ جات کا معاملہ اٹھتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کیا اسمبلی خالی چھوڑ دی جائے؟
خاص کر وہ سندھ اسمبلی جس کو خالی چھوڑنا 80 کی دھائی میں نام نہاد غیر جماعتی ضیائی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی عدم شمولیت کے ‘بچگانہ’ فیصلے سے بھی بڑا بچگانہ فیصلہ ہو گا؛ وہ سندھ اسمبلی جس پر کئی ‘ہلکے/حلقے پھلکے’ کب کی سِیندھ لگائے بیٹھے ہیں۔ (اس غیر جماعتی انتخابات سے باہر رہنے کے فیصلے پر محترمہ بے نظیر نے بھی بعد ازاں بہت regret کیا تھا۔)
وجہ؟
ابھی اسمبلیوں کی مڈ ٹرم بھی نہیں ہے۔ اس وقت استعفیٰ جات دینا کوئی سیاسی دانش مندی نہیں ہو سکتی: خاص کر اس وقت جب ‘ڈھکے چھپے ایکٹرز’ بھی کھل کر سامنے آنے کو تیار نہیں، اور پی ڈی ایم بھی ‘اس غیر موجودگی’ میں کچھ خاص نہیں کر پائی۔
بھئی سیدھی بات ہے، سِنہ 2013 میں پی ٹی آئی اور طاہر القادری کا آزادی مارچ بھی ‘بھر پُور سرکاری مدد’ کے با وجود کیا کر پایا تھا؟ وہ تو پھر آخری مرحلے پر ‘وسیع تر ملکی مفادی مایوسی میں’ عدالتِ عظمیٰ کے ذریعے ڈِیپ سرکار کو ‘وڈا آپریشن’ ہی کرنا پڑا۔
سو، استعفیٰ جات کے آنے کی اس وقت میں کوئی امید ‘انٹرن شپ اینکرز’ اور ‘سجیلے قسم کے نو جوان فیس بکی لقمان’ تو کر سکتے ہیں، ہم جاہلوں سے تو نہیں ہو سکتی۔
ہر چند کہ فضل الرحمٰن ایسا کرنے کا ہی کہیں گے۔ وہ شروع دن سے ہی اپنے سیاسی stakes کے ایک پاسے لگ جانے سے موجودہ اسمبلی سے استعفیٰ جات دینے کے متمنی اور مدعی تھے۔ البتہ یہ منطق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی مفادات اور وجودی منطق سے میل نہیں کھاتی تھی، اور نہ ہی اب کھا رہی ہے۔ کم از کم پیپلز پارٹی کے لیے تو قطعی نہیں اور واضح طور پر قطعی نہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی قطعی نہیں، لیکن شاید چند ایک جذباتی وقتی طور پر ابل نہ جائیں۔
سیاست long drawn battle ہوتی ہے، یہ انتہائی مختصر کہانی نہیں ہوتی۔ ٹیں ٹیں فش نہیں ہو سکتا۔
اس نگوڑے کام میں گام گام چلنا پڑتا ہے۔ اس میں دباؤ کو کھولاؤ پر لے جایا جاتا ہے، لیکن کھول کر برتن سے باہر گرنے سے غیر متعلقہ نہیں ہونا ہوتا۔
سو استعفیٰ جات وغیرہ نہیں ہوں گے، ایسا ہونے کی بہت ہی کم فی صدی درجے کی توقعات ہیں۔
پنجاب میں تبدیلی کا منظر بن سکتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں۔ لیکن اگر چودھری وزارتِ اعلیٰ میں آگے آ جاتے ہیں تو مسلم لیگ ن جو کہ پنجاب میں نمبر گیم میں با معنی موجودگی رکھتی ہے، اس کے لیے عثمان بزدار جیسی ہوائی پُکاہنا مخلوق، papier-mache کی موجودگی اگلے الیکشنز کے لیے اچھا نظر وَٹّو ہے۔ چودھری ان مسلم لیگ ن والوں کے مستقبل کے امکانات کو کھا جائیں گے۔
لہٰذا، پی ڈی ایم ہلکا ہلکا اور وقفے وقفے سے کام جاری رکھے، تا کہ ہائبرڈ حکومت پر جواب دہی کا کچھ احساس رہے اور اگلے انتخابات میں پچھلے والے انتخابات کی طرح کا لوٹ میلہ نہ لگنے دے … برابری کے مواقع کے مطابق الیکشنز ہوں… level paying field ہوں؛اور اسی سیاسی مواقع کی برابری اور ہم واری کے ضمنی نتیجے کے طور پر ڈیپ سرکار کے راج دھانی والے دھڑے کے متبادل/دوسرے دھڑے کی مردانہ قوت کے لیے بھی کچھ space بنے… ورنہ کسی بھی دیسی ساختہ حسنِ مبارک کا خطے کی مجموعی تزویراتی صورتِ حال کو کَن اَکھیوں سے سیم پیج بناتے جانے کا بہت جیا کرتا رہتا ہے۔