پیپلز پارٹی کا عام آدمی سے کٹتے چلے جانا قومی المیہ ہے
از، یاسر چٹھہ
کچھ مفروضے قائم کر لینے دیجیے پھر بات کریں گے۔
پہلا مفروضہ یہ ہے کہ آپ کو کرکٹ صرف بہ طور کھیل اچھی لگتی ہے۔ آپ اس کھیل کو پاکستان کے دوسری ٹیموں سے مقابلوں کے علاوہ بھی دیکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ آپ نے 1992 سے پہلے کی کرکٹ کے بارے میں بھی سوچا اور دیکھا بھالا ہے۔ آپ کو ٹیسٹ کرکٹ سے بھی لگاؤ ہے، آپ ٹی ٹوینٹی کو کرکٹ اور چیمپئن شپ کی معراج نہیں سمجھتے۔ آپ کو ہر بات کو کرکٹ کی عینک سے دیکھنے کی لت نہیں پڑی ہے۔
دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ آپ کی دیگر سوشل میڈیا اور فیس بک وغیرہ پر ڈسپلے پکچر میں کبھی بھی جنرل پرویز مشرف، یا جنرل راحیل شریف کی تصویر نہیں لگی ہے۔
تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے متعلق آپ کا جو بھی علم ہے، اس کا واحد ذریعہ مطالَعۂِ پاکستان کی درسی کتابوں کا نہیں۔ اور آپ نے کبھی کبھار کوئی اور کتاب بھی دیکھی بھالی ہے۔
چوتھا مفروضہ آپ کی ملکی عدالتوں کے متعلق ایمانی نوعیت اور اس ایمانی حالت کے وقت پر ہے؛ آپ کا خیال ہو کہ ملک کی عدالتیں اور ان کے منصفین، (جسٹس افتخار محمد چوہدری کے معروف زمانہ کسی امامِ انصاف کی جانب سے بولے گئے شرم ناک لفظ پر لیے گئے نوٹس سے پہلے بھی) کچھ قابل تنقید افعال و فیصلے کرتی تھیں۔
پانچواں مفروضہ یہ ہے کہ آپ کو اتنا تھوڑا سا فرق پتا ہو کہ ملک کا جو ہر سال کا میزانیہ ہوتا ہے اس میں کتنے فیصد صد ترقیاتی مدوں میں ہوتا، کتنے فیصد دفاعی امور کے لیے ہوتا ہے، کتنے فیصد قرضوں کی واپسی کے لیے رکھا گیا ہوتا ہے؛ یہ قرضے کیا صرف نہاری کے لیے موٹا گوشت لینے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں، یا ان سے نا قابلِ تسخیز دفاع کو مزید نا قابلِ تسخیر بنانے کے لیے بھی کوئی تلوار یا میان بھی خریدی جاتی ہے؛ یا یہ میزانیے کے ترازو کے پا سَنگ کے طور حاصل کرنا اشد ضروری ہو جاتا ہے؟
مزید یہ کہ آپ کو یہ بھی پتا ہو کہ کون سی مَدّوں میں تسلیم کردہ مطالباتِ زَر ہوتے ہیں جن کا کسی آئینی ادارے سے حساب کتاب اور پڑتال کا عمل اپنایا نہیں جاتا؛ ہرمالی سال کے نئے میزانیے سے پہلے کچھ ضمنی مطالباتِ زَر بھی قومی مجلسِ قانون ساز میں پیش ہوتے ہیں؛ ان میں سے زیادہ رقم کے صرف کرنے میں اپنی حدود سے تجاوز کن اداروں کی جانب سے ہوتی ہے۔
چھٹا مفروضہ یہ کہ آپ چند مشہور شہروں کی زیادہ گنجان آباد ووٹروں کی نظروں کو دکھائی دینے والی سڑکوں، اور ان پر دوڑنے والی برآمد شدہ بسوں کو ہی ترقی کا واحد پیمانہ نہیں مانتے۔
ساتواں مفروضہ یہ کہ آپ سمجھتے ہیں کہ وفاقیت کیا ہوتی ہے؟ اس کے کیا فوائد و مناصب ہوتے ہیں؟ اس کی کیوں کر پاکستان جیسے ممالک میں اشد ضرورت ہوتی ہے؟ اس کی ملکوں کو متحد رکھنے میں کیا افادیت ہوتی ہے۔ اور اس پر آپ کا سارا علم وِکی پیڈیا کے متعلقہ آرٹیکل تک ہی محدود نا ہو۔
یوں تو زیادہ مفروضے ہوں تو باتوں کے تاجروں کے فلسفۂِ عقل کے مطابق بات کم زور ہو جاتی ہے؛ لیکن ان معدودے چند سوچنے اور پرکھنے والوں کے لیے یہ انداز کسی بات کرنے والے کی خود آگہی اور اس کے شعوری درجے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ خیر اب دل کی کَتھا شروع ہوتی ہے۔
کچھ مہینے اور ایک پورا سال پیچھے کو جائیے۔ جناب آصف علی زرداری ایک سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہیں۔ تقریر کے جوش میں ایک سچ بولتے ہیں۔ اس موسم میں سچ بولتے ہیں کہ جب ایک لیفٹیننٹ جنرل کے رتبے پر فائز صاحب پاکسانیوں کے مجمعے کو المعروف شکریہ، شکریہ کے ورد کرا رہے تھے، انہیں آ بھی جائیے کی التجائی عبارتوں والے پینا فلیکس اشتہار اسلام آباد کی شاہ راہِ دستور کے آس پاس سب ملک کے سب آئینوں، دستوروں اور ضابطوں کے آرٹیکل نمبر “چ”، “ھ” کی بن گئی “چھ” کا منھ چڑا رہے تھے۔ سچ بولنا کب سستا پڑا تھا، اور اس وقت کہ جب فرشتے آپ کے آس پاس، دائیں بائیں، قطار اندر قطار ہوں، مگر آپ کو میدان ہائے جنگ میں سُرخ رُو کرنے کے لیے نہیں! اور سچ بولنے سے پہلے آئینہ بھی دیکھنا تو واجب ہوتا ہے، جناب!
المختصر، زرداری صاحب کو جانا ہی پڑا کیوں کہ انہیں پتا تھا کہ یہ خود تو ریٹائر نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ بلاول بیٹا ہی تو ہے؛ اور اس نے ابھی تک کہاں اورنگ زیب اور شاہ جہاں والی کہانی پڑھی ہے۔ وہ تو ٹویٹر پر ہی کلفت وقت کی زہر مار کر لیتا ہے۔ زرداری صاحب مستقل تھے۔ غیر مستقل والوں کی ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ زرداری صاحب واپس آ گئے۔
واپس آئے تو کراچی ایئرپورٹ سے آتے ہوئے رستے میں بڑی خوب صورت باتیں کیں؛ کشمیر والا قومی ترانہ چھیڑا تا کِہ اعلان کیا جا سکے کہ ہم نئے غیر مستقل والوں کو یقین دلا سکیں کہ مودی ہمارا یار ہر گز نہیں۔ اور کشمیر تو ویسے بھی سرکاری کلمہ ہمیشہ سے رہا ہے، حب الوطنی کے پیمانے کے طور پر! پر مجید انور گرفتار کیا جاتا ہے؛ لگتا ہے وردی بدل گئی، نظام اور نظر زیادہ نہیں بدلی۔
خیر، اس بابت پیپلز پارٹی کے مقدر ہمیشہ سے ہی ٹھنڈے رہے ہیں؛ بھلے یہ ہزاروں قیدیوں کو بھارت کی بہ قولِ صدیق سالک پتھروں کنکریوں والی دال روٹیوں سے بچا کر دو بارہ اپنے ملک کی بہترین آفیسرز میس میں بھی کیوں نا لے آئیں۔
ایئرپورٹ کے رستے میں آتے ہوئے گھنٹوں منٹوں کے وقفے سے زرادری صاحب کی جانب سے کسی خوش خبری کی باتیں ہونے لگیں۔ دل اچھلا، ہم بہت مسرور ہوئے کہ جانے زرداری صاحب کیا خوش خبری دینے والے ہیں۔ ہر چند کہ اس بات سے تجربی آگہی تھی کہ یہ 27 دسمبر کے محترمہ بے نظیر کی برسی والے دن کے لیے اشتہاری teaser تھا۔
پھر بھی سوچا سندھ میں جہاں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وہاں کے لیے پتا نہیں کون سا انقلابی پروگرام آنے لگا ہے۔
انتظار تھا، جانے کیا ہو!
ستائیس دسمبر آتا ہے۔ شریک چیئرمین کی تقریر ہوتی ہے۔ عام طور پر اہم باتیں تقاریر کے اختتام تک سنبھال کر رکھی جاتی ہیں۔ لیکن شریک چیئرمین، جناب آصف علی زرداری آج انتظار نہیں کراتے۔ شاید انہیں بھی پتا تھا کہ خوش خبری کچھ زیادہ اہم نہیں؟ تقریر کے پہلے ڈیڑھ، پونے دو منٹ ہی میں سنا ڈالی۔ کس قدر اینٹی کلائمیکس ہے؛ صاحب کہتے ہیں کہ ہم ملک کی مجلس قانون ساز کے رکن کے طور پر منتخب ہو کر اسلام آباد آنا چاہتے۔ ساتھ ہی رابطۂِ عوام مہم کا بھی اعلان کیا۔
رابطۂِ عوام مہم جائز، بہت ضروری اور بہت وقت سے ضروری تھی۔ ( پچھلے انتخابات میں بھی تو ضروری تھی) اچھا کیا ایسا اب کرنے لگے ہیں۔ اور یہ بھی اچھا کیا کہ انتخابات کے قریب آ کر کرنے لگے ہیں؛ سیاست کے ٹی ٹوینٹی مَشّاق کی طرح آئے روز کسی کی انگلیوں پر کھیلتے کھیلتے اپنے سیاسی بال و پر بے توقیر نہیں کر بیٹھے۔ لیکن زرداری صاحب سے ہم ایک مخلصانہ شکوہ ان کی خوش خبری کے انتخاب اور اس کے نشریے کے متعلق ہے۔
پیپلز پارٹی جو ملک کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس کی جڑیں عوامی خوابوں اور خوابوں کی تعبیروں میں پیوست تھیں۔ (راقم کو رائے رکھنے کا اختیار ہے!) کیا آج پیپلز پارٹی اس قدر اپنی جڑوں سے ناتہ کم زور کر بیٹھی ہے کہ اس کی عوامی مجلسوں میں تجریدی خیالات کی رکابیاں سجائی جاتی ہیں اور وہی بانٹنے کو رہ گئی ہیں؟
کیا پیپلز پارٹی کو اس وقت عوامی مسائل کا ادراک اور ان کی بنیاد پر خوش خبریاں بُننے کا ڈھب بھول گیا ہے؟
کیا ایک رخصت ہوتی پارلیمان میں چیئرمین اور شریک چیئرمین کار کن بن کر آ جانا ہی سب سے بڑی عوامی اور ملکی ضرورت ہے؟
پیپلز پارٹی گلی کے عام آدمی کی امنگوں، خواہشات، اور بولنے اور کے محاورے سے مکمل کٹ چکی ہے؟
پیپلز پارٹی کی قیادت سے درخواست ہے کہ اس عظیمُ الشّان وراثت والی جماعت کو عوام سے مزید دور ثابت کرنے کی اس قدر سنجیدہ کوششیں ترک کیجیے؛ وہ کوششیں جو اس کی قیادت نے محترمہ کے دارِ فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد روا رکھی ہوئی ہیں؛ (کچھ نا کرنا، بھی ایک زاویے سا کرنا ہوتا ہے۔)
خدا را پاکستان پر احسان کیجیے۔ پاکستان اس وقت سیاسی Balkanization کا شکار ہے؛ کسی اور جماعت کی جڑیں سب صوبوں میں نہیں۔ آپ صرف اندرون سندھ کی پارٹی بننے اور بنے رہنے کی بے عملی کا چلن چھوڑیے۔ معلوم ہے، آپ کی سیادت حادثاتی ہے، ایک سوالیہ نشانوں سے اٹی وصیت کے ستون پر استوار ہے۔ پر جو کچھ بھی ہے ادارک اور احساس کیجیے کہ آپ وفاق پاکستان کی علامت سیاسی جماعت کے امین ہیں۔ اس کو جنرل ضیاء الحق سے بھی زیادہ سنجیدہ ہو کر تلف کرنے کی کوشش مت کیجیے۔