پنجاب میں پیپلز پارٹی کو کیا ہوا؟ اسے کیا کرنا ہوگا
منو بھائی
ایک خبر کے مطابق لاہور میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق صدرآصف زرداری نے کہا کہ ’’2013ء کے انتخابات میں آر اوز مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتا تو بڑا بحران پیدا ہو جاتا لیکن میں نے جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے لیے ہمیشہ سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ کھڑا ہوا لیکن نوازشریف نے مجھے پریشانی اور مشکل میں دیکھ کر غیر سیاسی قوت کی خوشنودی حاصل کی اور جب میں نے نوازشریف کے بھائی کے انتقال پر اظہار تعزیت کے لیے ان کے پاس جانا چاہا تو انہوں نے انہی قوتوں کو خوش کرنے کے لیے مجھ سے ملنے سے انکار کردیا۔‘‘
غیر سیاسی قوتوں کو خوش کرنے کی روایت بہت پرانی ہے لیکن پیپلز پارٹی ایک عرصہ اس روایت سے دور رہی، کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اصل طاقت یعنی قوت کا سرچشمہ اس ملک کے وہ محنت کش عوام تھے جو اپنے حالات تبدیل کرنا چاہتے تھے اور جو حالات کو انقلاب کے کنارے تک لے آئے تھے۔ مگر پھر یوں ہوا کہ پارٹی کی قیادت محنت کش عوام کے حالات بدلنے کی بجائے اپنے حالات بدلنے میں مصروف ہوگئی، یہی وہ عمل تھا جس سے غیر سیاسی قوتیں یقیناً خوش ہوئی ہوں گی۔
ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جب عوام کی خواہشات کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات پر چلنے لگے تو غیر سیاسی قوتوں کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کچھ ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ آج کی بات نہیں آج سے کئی سال پہلے پیپلز پارٹی کی قیادت کی آہستہ آہستہ بدلتی ہوئی ترجیحات کو میں نے محسوس کیا تھا۔ اگست 1999ء میں میرا ایک کالم ’’سرخ بتی کا اشارہ‘‘ کچھ اس طرح سے تھا کہ ’’کل سہ پہر پاکستان پیپلز پارٹی لاہور کی خواتین کا ایک جلوس ساجدہ میر کی قیادت میں ریلوے سٹیشن سے چیئرنگ کراس تک جاتے ہوئے جب لکشمی چوک کی سرخ بتی کے اشارے پر رک گیا اور پھر سرخ بتی کے اشارے پر رکنے والی عام ٹریفک میں گم گیا تو میرا دل لہو سے بھر گیا۔
مجھے پیپلز پارٹی کے 1968ء اور 1969ء کے وہ جلوس یاد آئے جو راولپنڈی میں شیخ عبدالرشید اور لاہور میں راشد بٹ جیسے طالب علم رہنما بھی اپنے قابو میں نہ رکھ سکتے تھے اور جن میں ذوالفقار علی بھٹو بھی سمندر میں تنکے کی طرح تیرتے دکھائی دیتے تھے، اورپھر وہ جلوس بھی یاد آیا جب محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ جنرل ضیاء الحق کے آخری دورمیں طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئی تھیں۔ (اور پھر 2008ء کے الیکشن سے پہلے اور الیکشن میں جو بے پناہ عوامی پذیرائی ملی) پورے ملک کو ہلا کر رکھ دینے والے ان جلوسوں سے لکشمی چوک کی سرخ بتی پر رک جانے اور پھر ٹریفک میں چھپ جانے والے اس جلوس کے درمیانی عرصہ میں کیا ہوا ہے؟
یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت اور فرصت اس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نہیں ہے اور یہی اس پارٹی، اس ملک اور یہاں کے لوگوں کی بدنصیبی ہے۔’’مرزاں صاحباں‘‘ کے منظوم قصہ میں ایک جگہ حافظ برخوردار….. کہتے ہیں؎
برا کیتو ای صاحباں میری ترکش ٹنگی او ای جنڈ
میں بنا بھرا نواں ماری امیری ننگی ہو گئی کنڈ
یعنی’صاحبا! تم نے میری ترکش کو درخت پر ٹانگ کر برا کیا ہے۔ میرے ساتھی مجھے چھوڑ گئے ہیں اور میں اپنی پیٹھ ننگی ہونے کی وجہ سے مارا گیاہوں۔‘
کچھ ایسی ہی بات پاکستان پیپلز پارٹی بھی اپنی اعلیٰ قیادت سے کہہ رہی ہے کہ تم نے میرے نظریات کے تیروں سے بھری ترکش مصلحتوں اور مصالحتوں کے درخت پر لٹکا دی ہے جس کے بغیر میرے ساتھی مجھے چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں یا این جی اوز میں چلے گئے ہیں اور میں لکشمی چوک کے اشارے پر رک کر وفات پا رہی ہوں۔ 18 اگست 2017ء کی یہ خبر بہت خوش آئند ہے جس کے مطابق آصف علی زرداری نوازشریف سے اس لیے خوش نہیں کہ انہوں نے غیر سیاسی قوتوں کوخوش کیا۔ اس سے یہ امید بھی لگائی جاسکتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی غیر سیاسی قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔
اس خبر کے مطابق آصف زرداری نے مزید کہا کہ ’’اعتزاز احسن جو بولتے ہیں وہ میری آواز ہے۔‘‘ حالانکہ مجھ سمیت پیپلز پارٹی کے سب خیر خواہ یہ چاہتے ہیں کہ اعتزاز احسن یا آصف علی زرداری جو کچھ بھی بولیں وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی شہید بیٹی کی آواز ہو، جو اس ملک کے ہر محنت کش کو اپنے دل کی آواز لگے۔ پیپلز پارٹی کو مصلحتوں اور مفادات کے درختوں پر لٹکی ہوئی نظریات کی ترکشیں واپس اتارنا ہوں گیں۔ ’’روٹی، کپڑا اورمکان‘‘ کا نہیں توبھوک، بیماری اور بے روزگاری کے خاتمے کے نعرے کو زندہ کرنا ہوگا اور یہی وہ سوچ ہے جس پر عمل سے غیر سیاسی قوتوں کی خوشی میں کچھ کمی لائی جاسکے گی۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ