کاملیت پرست ریاستیں اور ان کی عدالتوں کی خر مستیاں
از، نصیر احمد
کاملیت پرست ریاستوں میں اچھے قوانین موجود ہوتے ہیں۔ بعض کے تو سوویت یونین کی طرح اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ آئین کی کتاب تو فردوس کی طرح نظر آتی ہے۔ بعض کاملیت پرست ریاستیں بہت سارے اچھے قوانین برقرار رکھتی ہیں، لیکن اپنے نظریے کے مطابق نئی قانون سازی کرتی ہیں جو بنیادی طور پر اچھے قوانین کو مسترد کر دیتی ہے۔
اس میں دھوکا یہ ہوتا ہے کہ کسی آمرِ مُطلق یا چند آمروں کی ایک کمیٹی کو یہ اختیارات سونپ دیے جاتے ہیں کہ وہ وسیع تر نظریاتی مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور قوانین کی تنسیخ کر سکیں۔
ہٹلر کی ریاست نے یہ اختیارات وائمر جمہوریہ کی پارلیمنٹ کے ذریعے حاصل کر لیے۔ بنیادی انسانی حقوق کو معطل کر دیا گیا۔ ریاستی اداروں پر قبضہ کر لیا گیا۔ اقلیتوں کے خلاف قانون سازی کی گئی۔ سیاسی مخالفین پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اور عدالتوں کو بھی ہٹلر کی کاملیت پرست ریاست کے ماتحت کر دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری یہ ہو گئی کہ انہوں نے جرمن قوم کے عظیم مفادات کو پر قسم کی عدالتی ضرورت پر ترجیح دینی ہے۔ یعنی ہٹلر اور اس کے غنڈوں کی مرضی کے فیصلوں کے لیے گواہ، ثبوت، دلیل، طریقہ کار، قانون اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی معطلی انصاف کا مقصد بن گیا۔ اور اس غنڈہ گردی کو معتبر بنانے کے لیے قانون دانوں کی مدد لی گئی۔ جنھوں نے اس غنڈہ گردی کو معتبر قانونی اصطلاحات کے لبادے اوڑھائے۔
مثال کے طور پر یہودی اور دوسری اقلیتیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کو آخری حل کہا گیا۔ پاگلوں، معذوروں اور خانہ بدوشوں کے خاتمے کو آریائی پاکیزگی کا نام دیا گیا۔ یعنی ظلم کے حوالے سے جو بات بھی ضمیر پر بوجھ بن سکتی تھی اسے لغت سے غائب کر دیا گیا۔
اچھے لوگ ہوں، یا اچھی باتیں، عقل مند لوگ ہوں یا عقل مندانہ باتیں، حقیقت پسند لوگ ہوں یا حقیقت پسندانہ باتیں، مہربان لوگ ہوں یا مہربانی کی باتیں، ریاستی نظام سے ان سب کا غیاب ہٹلر کی ریاست کی ترجیح ٹھہرا۔ اور ریاست کو اس پروگرام کے حصول میں بہت بڑی کا میابی بھی حاصل ہوئی۔ اچھے، عقل مند، حقیقت پسند اور مہربان لوگوں سے ہٹلر کا جرمنی بڑی حد تک خالی ہو گیا۔
مکمل طور اچھائی، عقل مندی، حقیقت پسندی اور مہربانی کا غیاب تو کسی بھی ریاست کے لیے ممکن نہیں ہوتا لیکن اس پروگرام میں جتنی بھی کامیابی ہو جائے وہ انسانیت کے لیے تباہ کن ہی ہوتی ہے۔
ناٹزی ریاست کے قانونی روبوٹوں میں ایک فرائزلر بھی تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں قیدی ہوئے۔ بعد میں قانون دان ہوئے۔ ناٹزیوں کا عروج ہوا تو ناٹزی پارٹی میں شامل ہوئے۔ اور ناٹزیوں کی قانونی مدد میں مصروف ہو گئے۔ اقلیتوں کے خلاف قانون سازی میں مدد کی۔ قانون کی گواہ، ثبوت، طریقہ کار، دفاع، تناسب، توازن، غیر جانبداری جیسی اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں ان سے قانون کو تہی کرنے میں ریاست کی خدمت کی۔ یعنی اگر کسی کو پھانسی دینی ہو تو شبہ ہی کافی تھا۔
بعد میں جب ناٹزی ریاست کا معاشرے پر قبضہ بڑھتا گیا تو شبہ بھی اتنا اہم نہیں رہا۔ بس نگ پورے کرنا ہی انصاف کا مقصد ٹھہرا۔ پاگلوں، معذوروں اور خانہ بدوشوں کے ریاستی قتل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہودیوں کے خاتمہ جسے آخری حل کہا جاتا ہے، اس کے سلسلے میں بیورو کریٹوں کی جو کانفرنس منعقد ہوئی اس میں بھی شریک ہوئے۔
جرمنی میں پہلی مرتبہ نو عمروں کی پھانسی کو رواج دینے میں بھی فرائزلر کا بہت حصہ ہے۔ انھیں ہٹلر کی قربت کی آرزو تھی لیکن پہلی جنگ عظیم میں جب قیدی ہوئے تھے تو انھیں سوویت یونین میں جرمن قیدیوں کا افسر بنا دیا گیا تھا۔ اس پس منظر کی وجہ سے اہم ہوتے ہوئے بھی قربت کی آرزو تشنہ رہی۔ یعنی محل کے کتے نہیں بن سکے مگر محل سے باہر ہی سہی، ناٹزی ریاست کو انھیں ہڑش کہنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ نظریاتی طور پر قومی سوشلسٹ تھے، اس لیے وہ اکسانے کے بغیر ہی ناٹزیوں کے دشمنوں پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ اور ناٹزیوں کی دشمن تو انسانیت تھی اور فرائزلر ناٹزیوں کے لیے انسانیت کو چیرتے پھاڑتے رہے۔
سوویت یونین نے تیس کی دھائی میں کیروف کے قتل کے بعد لینن کے ساتھیوں کے خلاف شو ٹرائلز کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس میں بخارین اور کامینیف اور ٹراٹسکی کے حامیوں کے خلاف جعلی عدالتی کارِ روائی بڑی تقریب سے منعقد ہوتی تھی۔ جس میں عدالت غوغا برپا کر کے ملزموں کو شرمندہ کرتی تھی اور ملزم ریاست کے خلاف بڑی مسکینی سے اپنے گناہوں کے اعتراف کرتے تھے۔
سامنے تو یہی دکھائی دیتا تھا لیکن پس پردہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ییژوف تشدد اور بلیک میلنگ کا کھیل کرتے تھے۔ یعنی اگر اعتراف نہ کیا تو بیوی بچوں کو قتل کر دیں گے جس کے نتیجے میں شرمندگی سے جرائم کا اعتراف ملزموں کی مجبوری بن جاتا تھا۔ ناٹزی جرمنی اور سٹالن کا سوویت یونین دونوں کاملیت پرست ریاستیں تھیں۔ اور ایک دوسرے کے سیاہ تجربات سے مسلسل سیکھتی رہتی تھیں۔ اور دونوں کو ایک دوسرے کی شدید مخالفت کے باوجود اس باہمی تعلیم کا احساس بھی تھا۔ اسی لیے تو سٹالن نے جب بیریا کو اپنی خفیہ ایجنسی کا سربراہ بنایا تو ایک جرمن سفیر سے اس کا یوں تعارف کروایا کہ بیریا سے ملو، یہ ہمارا ہملر ہے۔ (ہملر ہٹلر کی خفیہ تنظیموں اور مسلح جتھوں کا سربراہ تھا۔)
خیر فرائزلر سوویت یونین کے ان جعلی ٹرائلز میں شامل ہوئے اور سوویت عدالت کے طریقہ کار کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ان دنوں شاید جنگی ضروریات کی وجہ سے ہٹلر سٹالن بھائی بھائی کا بھی غلغلہ تھا۔ اس لیے فرائزلر کو سیکھنے میں اور سہولت ہوئی۔
1942 میں جنگ کے دوران فرائزلر کو عوامی عدالت کا صدر متعین کر دیا گیا۔ وہ خونی قرمزی خِلعت پہنے عدالت کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ سواستیکا پرچم بھی عدالت میں موجود تھے اور ہٹلر کی تصویر بھی۔ فرائزلر نے تین سالوں میں پانچ ہزار پھانسیاں دیں۔
ملزم ان کے سامنے آ جائے تو جانیے پھانسی پکی۔ وہ ملزم پر چیختے چلاتے، گالیاں دیتے، دفاع میں بات نہیں کرنے دیتے، دھمکیاں دیتے۔ غنڈے، بدمعاش، نجات دہندہ سے غداری کی ہے۔ سب کچھ جرمنی نے تمھیں دیا اور تم نے تھالی میں ہی چھید کر دیا۔ حرامی، سور، کیکڑے، تمھاری یہ جرات۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، تم تو شکل سے ہی مجرم نظر آتے ہو۔ تمھیں تو ہزار بار پھانسی دوں، پھر بھی کم ہے۔ تم اپنی بے ہودہ اور گندی زبان بند ہی رکھو۔ مجھے تمھاری بات نہیں سننی۔ جیسے اپنے حسن نثار کے کالم ہوتے ہیں، اس طرح کی ان کی عدالتیں تقریریں ہوتی تھیں۔
ایک ملزم کی معشوقہ بتاتی ہیں کہ ہمیں تو کمرۂِ عدالت میں جانے نہیں دیا گیا لیکن ایک گونجیلی آواز جس میں موت کی سیاہی رچی ہوئی تھی، کانوں سے ٹکراتی تھی اور دل کانپ کانپ جاتا تھا۔ ایک دوبار تو جی چاہا کہ جا کر یار جانی کو دیکھ آئیں لیکن پھر نہیں گئی کہ اس نفرت گاہ میں میرے چہرے پر پھیلا ہوا دکھ دیکھ کر میرا محبوب تو موت سے پہلے جانے کتنی موتیں مرے گا۔
ہٹلر کے قتل کا منصوبہ بنانے والے مجرموں (انسانیت کے محسن) پر تو فرائزلر بہت ہی چیختے چنگھاڑتے تھے۔ پیشی سے پہلے ان لوگوں کے تشدد کا انتظام کرتے تھے۔ جنرل وٹزلییبن کی بیلٹ چھین لی۔ اب عدالت میں وہ اپنی پینٹ سنبھالے کھڑے ہیں اور فرائزلر انھیں گالیاں دے رہے ہیں کہ غنڈے تم سے تو صیحیح طرح سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔
لیکن اتنے شوروغل اور چیخ پکار کے باوجود وہ سب لوگوں کو نہیں ڈرا پاتے تھے۔ سفید گلاب تنظیم کی باغی سوفی شول اور ان کے بھائی تو بالکل ہی خوف زدہ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح ہٹلر کے قتل کی سازش میں ملوث ایک اشرف بھی نہیں ڈرے تھے۔
جرمنی کے اشرف زیادہ تر کاؤنٹ کہلاتے تھے۔ اب ان کو دکھ پہنچانے کے لیے فرائزلر انھیں اٹھائی گیرا کہتے تھے۔ اٹھائی گیرے جس مقدس دھرتی نے تمھیں دولت کی نعمت عطا کی، تم نے اس دھرتی سے بے وفائی کی۔ جو رہنما قوم کے تحفظ کی ضمانت ہے، اسے ہی مارنے چلے تھے، اٹھائی گیرے اٹھائی گیر ے، اٹھائی گیرے۔ درمیان میں ایک دفعہ بھول گئے اور ان اشرف کو کاؤنٹ کہہ گئے۔
ان اشرف نے ہنس کر کہا۔ کاؤنٹ نہیں یور آنرز، اٹھائی گیرا۔
اسی طرح بے گناہوں کو پھانسیاں دیتے فرائزلر اتحادیوں کی بم باری میں ہلاک ہو گئے۔ ان کا کوئی ستم زدہ یہ حادثہ دیکھ رہا تھا۔ وہ سِتم ظریف کہتا تھا کہ برطانیہ عظیم کی ایئر فورس کے طیارے اس صبح رنگ برنگی تتلیوں کی طرح نمودار ہوئے۔
فرائزلر کو کسی بات کا کیا تاسف ہونا تھا۔ ان کی سیاہی علاج سے ماورا تھی۔ مگر ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست کو جمہوری اصولوں پر مبنی جمہوری قوانین کے علاوہ کسی قسم کا نعرہ، دعوٰی، منشور، نظریہ، عقیدہ اور فلسفہ یا قانون نہیں ملنا چا ہیے جو جمہوری قوانین کو معطل یا منسوخ کر سکے۔ اور اس بات کی ضمانت با شعور شہری ہی دے سکتے ہیں کہ ریاست اور اس کی عدالتیں کسی نعرے، دعوے، منشور، نظریے، عقیدے فلسفے یا قانون کی بنیاد پر جمہوری قوانین کی خلاف ورزی نہ کر سکے۔ اور با شعور شہری بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ کسی ایسے نعرے، دعوے، منشور، نظریے، عقیدے، فلسفے یا قانون سے فریب نہ کھائیں کہ جمہوری قوانین کی خلاف ورزی، معطلی یا منسوخی کی وکالت کرنے لگیں۔
اگلی منزل انسانیت کی بے حرمتی ہے۔ اور اگر انسان انسانیت کی بے حرمتی کے وکیل بن جائیں تو خوش پوشی اور خوش خوراکی کے باوجود دل میر کی دلی سے بھی زیادہ اجڑا رہتا ہے۔ اور کسی دن کوئی ایسا توسن بحر خون میں شناور ملتا ہے کہ جینے کے جواز ہی نہیں ملتے۔ فرائزلر کی بیگم اور بچوں نے ان کا سنگِ مزار ہٹا دیا تھا اور وہ فرائزلر کے نام سے کسی طور بھی متعلق نہیں ہو نا چاہتے تھے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.