شخصیتوں کے گرد گھومتا معاشرتی و سیاسی نظام
(مجاہد حسین)
پرانے دور میں ایک عام آدمی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اسے اپنے علاقے کے جاگیردار کے پاس جانا پڑتا تھا۔ وہاں جانے سے پہلے وہ جاگیردار کے موڈ کا اندازہ کرتا، اس کے حواریوں کے سامنے ہاتھ جوڑتا اورسفارشیں تلاش کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود جب حاضری کا موقع ملتا تو اس کا مسئلہ عموماً کسی طےشدہ قاعدے قانون کے تحت حل نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ جاگیردار کا موڈ، اس کے اردگرد بیٹھے افراد کی کانا پھوسی اور اسی قسم کے دیگر عوامل اس کی قسمت کا فیصلہ کرتے تھے۔ برصغیر میں تقدیر پر اسقدر انحصار کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
جمہوری نظام نے اس استحصالی نظام کا خاتمہ اس طرح کیا کہ یہ تمام فرائض جاگیردار سے چھین کر اداروں کے ہاتھ میں دے دیئے۔ چونکہ ادارے اپنی ساخت میں غیر جذباتی ہوتے ہیں جن کا کوئی موڈ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے فیصلے طے شدہ قوانین کے تحت کرتے ہیں۔ اس لئے عام انسان کی زندگی آسان ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے مسائل ایک خودکار نظام کے تحت حل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ تصور تھوڑا اجنبی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہ بہترین حالت میں کام کر رہا ہے۔ جونہی عام آدمی کسی متعلقہ ادارے سے رجوع کرتا ہے، ایک خودکار نظام کے تحت اس کی شکایت کے ازالے کے لئے کام شروع ہو جاتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ادارے ہی ہوتے ہیں جہاں حکومت اور رعایا کا تعامل ہوتا ہے۔ کسی حکومت کی کارکردگی کا پیمانہ یہی ہے کہ اس کے ادارے کسقدر مستعدی سے کام کررہے ہیں۔ یہ ایک بڑا سماجی پیمانہ بھی ہے جو مہذب دور کو قدیم زمانے سے ممتازبناتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے سب سے بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے نہ صرف اداروں کو کمزور کیا ہے بلکہ اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹس کی صورت میں نئی قسم کے جاگیردار پیدا کر دئیے ہیں۔ اچھی حکومتیں معاشرے کو آگے کی طرف لے جاتی ہیں جبکہ ان دو بھائیوں نے سماج کو ماضی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ آج ایک عام آدمی اپنی شکایت لے کر تھانے جانے کی بجائے اسمبلی کے ممبر یا اس کے حواری کو تلاش کرتا ہے تاکہ اس کی سفارش کرا کے اپنا مسئلہ حل کرائے۔ ملک میں پھیلی کرپشن کی وجہ بھی اداروں کا کمزور ہونا ہے۔
ہمارا سماج آج بھی ہیرو پرستی میں اس لئے مبتلا ہے کہ ہم اداروں کی سطح پراپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل حل کرنے کے تصور سے نا آشنا ہو چکے ہیں۔ اسی لئے ہمارے حکمران پارلیمنٹ جیسے اہم ترین ادارے کو پرکاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور کابینہ کا اجلاس بلانے کی بجائے ذاتی دوستوں کے مشوروں سے حکومت چلاتے ہیں۔
نون لیگ نے بڑی ہوشیاری سے معاشرے میں پھیلی شخصیت پرستی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ کوئی سنگین واقعہ ہو جائے تو وزیراعظم اور وزیر اعلی نوٹس لے لیتے ہیں۔ انگلی کے اشارے سے چند سرکاری آفیسر بھی معطل ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے شیر شاہ سوری کا ہیولا دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہیرو پرستی کے اس خبط نے اداروں کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔
جمہوریت کے خوبصورت لبادے میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے بادشاہت کے اتنے پیوند لگا دئے ہیں کہ اب نہ ہی یہ خالص جمہوریت رہ گئی ہے اور نہ ہی بادشاہت۔ پاکستان کے سب ادارے اس وقت ریاست کے مسائل حل کرنے کی بجائے حکومت کے سیاسی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں۔ مجھے اس جماعت کے اکابرین سے سب سے بڑی شکایت یہی ہے۔
اس کے برعکس پی ٹی آئی نے خیبر پختونخواہ میں اداروں کو توانا کرنے کی ایک روایت کا آغاز کیا ہے۔ اگرچہ یہ ابتدائی سطح کی کوشش ہے لیکن یہ درست سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا دارومدار اسی پر ہے کہ ہم کتنی جلدی ماضی کے جاگیردار کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک مضبوط اور خود مختار ادارے تشکیل دیتے ہیں۔