پروین شاکر کی تانیثی صورت گری
از، رفعت خان کان پور، انڈیا
یوں تو شاعرات کی تاریخ کم و بیش اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ ادب کی قدامت متعین کی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں ایسی خواتین موجود نظر آتی ہیں جن کی شاعری بڑے فخر کے ساتھ مرد شاعروں کے مد مقابل رکھی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ ان شاعرات کے یہاں وہی گہرائی پائی جاتی ہے جسے مرد شاعروں کا اختصاص سمجھا جاتا ہے۔
اس ضمن کی اولین شاعرہ سیفو ہے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کی رومن تاریخ میں ان کا ذکر ملتا ہے۔ یوں تو متعدد تصانیف ان کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں، لیکن ان کی حصول یابی ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
عربی ادب میں خنسا کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ وہ ایک بڑی شاعرہ کے ساتھ ساتھ ایک بڑی نقاد بھی تھی۔ معلقہ شاعری میں ان کا وہ ادبی معرکہ تاریخی نوعیت کا حامل ہے جو ان کے اور حسان بن ثابت کے درمیان ہوا تھا۔
بنیادی طور پر خنسا شخصی مرثیے کی شاعرہ تھیں۔ ان کے زیادہ تر مرثیے ان کے سوتلے بھائیوں کے غم کے اظہار پر مبنی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ بھی انھیں عزیز رکھتے تھے۔
اسی طرح مغلیہ سلطنت میں کئی خواتین دانش وروں کو نشان زد کیا جا سکتا ہے لیکن اورنگ زیب کی بیٹی زیبُ النّساء اپنی فارسی شاعری کی وجہ سے کافی ممتاز سمجھی جاتی ہیں۔
انگریزی ادب میں میری سڈنی، الِزیتھ بیریٹ، شارلوٹ برَونٹے، ایمِلی ڈِکَنسن سے لے جدید عہد تک متعدد شاعرات اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کر چکی ہیں۔
یوں تو اردو میں شاعرات کی تعداد بہت کم رہی ہے لیکن جن شاعرات کا ذکر ہوتا ہے وہ واقعی بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ ادا جعفری، کشور ناہید، بانو داراب وفا اور پروین شاکر اردو کی وہ قابلِ فخر شاعرات ہیں جن کی شاعری فکر و فن کے امتزاج کی ایک عمدہ مثال ہے۔
ان تمام شاعرات کا اپنا ایک مخصوص اُسلُوب ہے جس سے ان کی شاعری پہچانی جاتی ہے۔ لیکن مذکورہ شاعرات میں پروین شاکر اس اعتبار سے اولیت کی حامل ٹھہرتی ہیں کہ انھوں نے پہلی بار نسائی احساس کو اپنی شاعری میں اس فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا کہ وہ ایک مضبوط شعری عقیدہ بن گیا۔
شاعری کے بارے میں یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ اس کا تخلیقی ظہور تخیّل کی ایک مخصوص صورتِ حال کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ شاعری ایک فرد کے داخلی کرب یا داخلی مسرت کا اظہار ہوتی تو ہے لیکن اس میں وہ فرد اپنی اصلی زندگی کی طرح موجود نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کہ شاعری کا غیر شخصی ہونا اس کی ایک اہم شرط ہے جس کی وضاحت ٹی ایس ایلیٹ نے پہلی بار کی تھی۔
لیکن جب ہم پروین شاکر کی شاعری کا مطالَعہ اس نقطۂِ نظر سے کرتے ہیں تو بہت دیر تک اس نظریے پر قائم نہیں رہ سکتے کہ شاعری ایک فرد کا اظہار تو ہوتی ہے لیکن اظہار کی نوعیت بالکل غیر شخصی ہوتی ہے۔
شاعری کی تاریخ میں کچھ ایسے شاعروں کی مثالیں موجود ہیں جن کی شاعری کا مطالَعہ کسی رائج شعری اصول کے تحت نہیں کیا جا سکتا۔ اردو میں غالب، اقبال اور میرا جی کی مثالیں بالکل سامنے ہیں۔ غالب کے یہاں معشوق کا بدلا ہوا تصور، اقبال کے یہاں فلسفیانہ نغمگی اور میرا جی کے یہاں ذہنی الجھنیں ایک بڑے شعری محرک کے طور پر موجود ہیں جن کو مروجہ اصول سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
پروین شاکر کی شاعری بھی ایک مخصوص اصول کے ساتھ نہیں پڑھی جا سکتی کیوں کے ان کے شعری اظہار میں ان کی شخصیت اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ جگ مگاتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں یہ بات فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ ان کی شخصیت کے تمام رنگوں پر جو غالب رنگ ہے رنگِ عشق ہے۔ مطلب یہ کہ ان کی شاعرانہ شخصیت میں جتنے انتشار نمایاں ہیں وہ سارے عشق کے نتیجے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پروین شاکر کی پوری شاعری میں عشق ایک مذہبی عقیدے کی طرح قابل تقلید نظر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ حیات و کائنات کے تمام مطالعات میں عشق کو کلیدی حیثیت سے استعمال کرتی ہیں:
وہ تو خوش بُو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے
کھو کر مجھے یہ لڑکی کہیں دکھ سے مر نہ جائے
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں
تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سنوں
الجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر
پروین شاکر کے یہ تمام اشعار عشق کی شدت سے پیدا ہونے والی صورت حال کا خوب صورت ترین اظہار ہیں۔ یہ سارے شعر عشق کے ایک رنگ کے بَر خلاف مختلف رنگوں کو منعکس کرتے ہیں۔
پہلے شعر میں خوش بُو، پھول اور ہوا کے تلازمات سےعشق کا ایک ایسا پیکر خلق کیا گیا ہے جو عاشق اور معشوق دونوں کی داخلی کیفیات کا مظہر ہے۔ یہاں معشوق کو خوش بو تصور کر کے اسے ہوا سے ہم آنگ کرنا بَہ ظاہر ایک آسان سا کام معلوم ہوتا ہے لیکن در اصل اس مشکل شعری طریق کار سے پروین شاکر معشوق کی زندگی کو بقائے دوام بخشتی ہیں۔ لیکن یہاں عاشق کی حیثیت ایک پھول کی ہے۔ یعنی یہ کہ خوش بو (معشوق) تو پھول (عاشق) سے جدا ہونے کے بعد ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے لیکن پھول کا افسردہ ہو کر بکھرنا یا فنا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شعر میں نہ صرف یہ کہ عشق کی فضیلت نمایاں ہے بل کہ عاشق اور معشوق دونوں کے مرتبے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
اسی طرح دوسرے، تیسرے اور چوتھے شعر میں بھی کم و بیش عشق کی متعدد کیفیتیں نمایاں ہیں جن سے عاشق و معشوق کے درمیان ایک نوع کا ذہنی تصادم پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پروین شاکر کے یہاں عشق ایک بڑے محرک کے طور پر موجود ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اس عشق کا دائرہ بہت محدود ہے کسی اعتبار سے درست نہیں۔
ان کی شاعری کے بَہ تدریج ارتقائی سفر میں فکر و فن کی سطح پر مختلف تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ خوش بو سے لے کر کف آئینہ تک پروین شاکر کی شاعری میں آنے والے کئی موڑ دیکھے جا سکتے ہیں۔ خوش بو کی ایک معصوم اور خوب صورت لڑکی کف آئینہ تک پہنچ کر ایک مکمل عورت بن جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پروین شاکر کی فکر میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایک نوع کی دبازت پیدا ہوجاتی ہے۔ لیکن یہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہ ان کی فکری دبازت کی ہر سطح پر عشق کی ایک ہلکی ہلکی آنچ ضرور موجود ہے۔
جلا دیا شجرِ جاں کہ سبز بخت نہ تھا
کسی بھی رُت میں ہرا ہو یہ وہ درخت نہ تھا
لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ پروین شاکر کی شاعری ایک ایسے نسوانی وجود کے بکھراؤ کا فنی اظہار ہے جو عشق کی شدت کے نتیجے میں نمایاں ہوتا ہے۔