علامت کی طاقت: پرویز مشرف کو سزائے موت سنانا
از، یاسر چٹھہ
مصدقہ غدار پرویز مشرف کو سنگین غداری میں سنگین ترین سزا سنائی گئی۔
آئین توڑنا، ملک توڑنے کے برابر ہوتا ہے۔
ہماری تاریخ بھی بڑے ستم ظریفانہ انداز سے ہمارا مُنھ چڑاتے بتاتی ہے:
ملک جب جب کم ہوا،
یہ وطنِ عزیز جب جب ٹوٹا،
یہ دیس جب جب کَرچی کَرچی ہوا،
یہاں کے باسی انسانوں کا دل جب جب ٹوٹا،
یہ صرف اتفاق ہی نہیں، بَل کہ قسمت کا بھونڈا مذاق ہے کہ ہر اس وقت آئین کو تعطل میں رکھنے والے، توڑنے والے، زبر دستی کی مسیحائی میں اہلِ وطن کے کندھوں پر سوار تھے۔
اب پہلی بار اگر علامتی طور پر سزائے موت کے غمگین نغمے کا ساز چھیڑا گیا تو اس قدر رنجیدگی، اس قدر احسانات کے بوجھ تلے اس عوام کو دبانا…
اور اس سے بھی بڑا مذاق کہ ملک کی پَبّھاں بھار گزری عمر میں ہر دھائی کے وقفے کے بعد کسی نا کسی گُھس بیٹھئیے کی آمد بَر سرِ لا یعنیت اور ایک جیسے جملوں کی تقریری تکرار کے ساتھ جس آئین کے تعطل و اختتام کی بھد خبری سنانا، کبھی اسے کاغذ کا محض ایک ٹکڑا کہنا، کبھی سنانا کہ ملک ملک ہوتا ہے، آئین کیا چیز ہے، اس قصیدۂِ وحشت، اس بھد نامۂِ عقل بُردگی کے حواری بھی، دفاع کے ہر فن، علم و فضل مولا تجزیہ کار اسی کاغذ کے پُرزے پر اپنی دلیل کی گواہی باندھ رہے ہیں کہ پیرا 66 تحریفِ آئین کے برابر، ہے جو کہ آئین توڑنے سے بھی بد ترین عمل ہے۔
تو کیا جج صاحب کو کرنا یہ چاہیے تھا کہ شدید نا پسندیدگی، extreme displeasure، کا اظہار کرنے کی سزا تجویز کرتے۔
اقلیتی فیصلے میں جج نے اگر سخت ترین سزا کی تجویز دی ہے تو اسے کیا آئین توڑنے سے زیادہ بڑا جرم سمجھا جائے؟
مجھے قطعی طور پر پھر سے کہنے کی ضرورت نہیں کہ سزائے موت، بھلے وہ کوئی فوجی عدالت دے، یا کسی rapist کو بَہ ظاہر مہذب ملکوں جیسی کوئی عدالت، یا کسی مصدقہ غدار کو خصوصی عدالت دے، میرے لیے یہ سزا اصولی طور پر نا پسندیدہ ہے، لیکن پیرا 66 پر اَڑ جانا بھی:
روندی یاراں نُوں لے لے نام بِھرواں دے
والا معاملہ زیادہ لگتا ہے۔
گھسیٹنے، لٹکانے، وغیرہ وغیرہ علامت کی عمارتیں ہیں۔ یہ سزائیں تھوڑی ہیں؛ نا سزا ہونی ہے۔
جو عدالت میں آ کر اپنا بیان دینا اپنی توہین سمجھتے تھے، جن کے پیشی پر آنے سے قبل پتا ہوتا تھا کل ان کے رستے میں دیسی ساخت کا پٹاخہ کہاں پھٹنا ہے تا کہ پیشی پر جانے کی باتیں، جانے دو کا راگ بلند تر کیا جا سکے۔ اور مصدقہ غدار ویسے بھی بسترِ علالت پر ہیں۔ پس، یہ علامتی سزا ہی ہے۔ مصدقہ غدار اس لیے کہہ رہا ہوں کہ با ضابطہ عدالتی طور پر اب تک یہی بات قولِ فیصل ہے؛ ورنہ تو غداری کے دعوے بانٹنے والے بَہ غیر پوچھے بتائے بانٹتے آئے ہیں۔
سو سزا علامت ہے، لیکن علامت کی بھی اپنی طاقت ہوتی ہے۔
ہم ہر برس کتنے جانور ایک علامتی قربانی کی نذر کرتے ہیں۔ ہم علامت، قومی جھنڈے کے لیے جیتے مرتے ہیں۔ علامت کے لیے جینا مرنا ہوتا ہے؛ علامت کے لیے جینا، مرنے سے البتہ ہزار ہا گنا افضل ہے۔
ہم نے قوم کے طور پر جینا ہے؛ قبیلے اور جتھے کے طور پر نہیں۔
پسِ تحریر
انگلستان کو ہمارے نابغوں سے کچھ تہذیب سیکھنا چاہیے کہ تم لوگوں نے تو طالع آزماء کرام وَیل، Cromwell، قبر سے نکال کر لٹکایا جب کہ ہم تو محض گھسیٹنا کہہ دینے پر مہذب ترین ہو گئے ہیں۔
کاش یہی تہذیب فوجی عدالتوں کے ذریعے با ضابطہ ٹارگیٹڈ کلنگ نام کی پھانسیوں کے وقت بھی آ جاتی۔