پھانے (افسانوی مجموعہ) از قمر سبزواری
تبصرہ کار: نعیم بیگ
چند برس پہلے جب ہم کچھ دوست اردو افسانے کی روایتی دنیا کے حصار کو توڑ کر نئی جہات کی بازیات میں انٹرنیٹ پر اردو افسانے کی سائبر دنیا بسا رہے تھے تو اردو افسانہ فورم پر ایک صاحب کا افسانہ برائے تنقید و تبصرہ لگا۔ میرے لیے نام نیا تھا، سو جلدی سے افسانہ پڑھنے کی کوشش کی ۔ ابھی افسانہ ختم ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ میں نے یہ دیکھنے کے لیے کیا اس پر کوئی گفتگو شروع ہوئی کہ نہیں، فورم کا پیج ری فریش کیا۔ دیکھا تو کئی ایک قاری اِس افسانے پر بڑے زور وشور سے اس کے عنوان اور کھلے ڈُلے طرز اسلوب اورمرکزی خیال پر اپنے اپنے جارحانہ دلائل دے رہے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں کے اردو قارئین کس قدر ذہنی بلوغت اور پختگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ اس سے پہلے کہانی کے دم توڑنے اور علامتوں میں ابہام ، اور غیر حقیقی داخلی کرب کو کسی قدر پیچیدہ اور گنجلک اور ابلاغ سے دور کر دینے کی وجہ سے کہا جا رہا تھا کہ افسانہ دم توڑ چکا ہے۔
یہ قمر سبزواری تھے اور افسانہ “حرافہ” تھا ۔ آج قمر سبزواری اپنے افسانوی مجموعے ‘پھانے’ کے افسانوی طلسم کدہ میں کئی ایک افسانہ نگاروں کو پتھر کر چکے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں معاشرت کا نفسیاتی جائزہ قاری کے سامنے اس کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ انسانی جنسی مسائل سماجی زندگی میں جس طرح اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہیں، خاندانی صداقتوں کے اندر گھٹن ، عورت کے نفسیاتی دباؤ اور مردوں کی پدر سری سماج میں بالادستی کو جس جراۤت سے وہ بے نقاب کرتے ہیں ، انھی کا خاصہ ہے
محمد حمید شاہد ان کے افسانوی مجموعے کے فلیپ پر رقم طراز ہیں ۔ ” قمر سبزواری نے لگ بھگ اپنی ساری کہانیوں کے پلاٹ ہمارے اردگرد کی معاشرت سے لیے ہیں۔ یہ وہ زندگی ہے جو ہن جیتے ہیں لہذا کوئی بھی کہانی ہمیں اجنبی یا انوکھی نہیں لگتی۔”
آگے چل کر وہ مجموعے میں شامل دو افسانوں ‘ حرافہ’ اور ‘ رکھوالی’ پر گفتگو کرتے ہوئے محمد حمید شاہد نے اشفاق احمد سے کی گئی اپنی گفتگو کو موضوع سخن بنایا، جس میں انکا خیال ہے کہ جنس کے علاوہ اگر کوئی اور موضوع ہے تو وہ ضمنی ہو گیا۔
ہندوستان سے فکشن نگار شموئیل احمد فلیپ کے دوسری طرف لکھتے ہیں ۔ ” قمر سبزواری کے افسانے موجوع کے اعتبار سے اپنا اسلوب خود گڑھتے ہیں۔ یہ افسانے کبھی نرم نرم انگلیوں سے نشتر لگاتے ہیں ، کبھی سخت کھردرے ہاتھوں سے جھنجھوڑتے ہیں۔ قمر کی دور رس نگاہیں عورت کی داخلیت میں اترتی ہیں تو نجمہ اور حرافہ کی بازیافت ہوتی ہے ۔”
خود قمر سبزواری کا اپنے افسانوں کے بارے کیا خیال ہے ۔ وہ مختصر پیش لفظ میں کہتے ہیں ۔۔۔
” ڈائجسٹوں کی عشقیہ کہانیاں اور نصابی کتب میں تاریخ و ادب کے نام پر لکھے مذہبی قصے پڑھیے اور اپنے بچوں کو پڑھائیں تاکہ انھیں شاہ دولے کے چوہے بننے کے لیے سر پر آہنی ٹوپیاں نہ پہننی پڑیں۔ بلکہ ایسی کتابیں اُن کے اذہان کو اندر ہی سے جکڑ لیں اور سروں کو چھوٹا کر کے چھوڑیں۔ ۔۔۔۔ ہاں اگر آپ اپنے اردگرد میں بسنے والے انسان کو پڑھنا چاہتے ہیں، اس کے دکھ سکھ کو محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی جبلت میں چھپی خواہش اور رینگتے خوف کو دیکھنا چاہتے ہیں، خود کو پڑھنا چاہتے ہیں تو ادب پڑھیں ۔۔۔ میرے افسانے پڑھیں۔ “
اس مجموعے میں دس افسانے شامل ہیں اور سبھی اپنے عنوان اور مرکزی خیال میں اس قدرجاذب نظر ہیں کہ کوئی بھی قاری پڑھے بغیر اگلا صفحہ نہیں پلٹ سکتا یہ میرا دعویٰ ہے۔ اتفاق سے اردو افسانہ فورم اور پروگریسو اردو رائٹرز اکیڈمی کے ایک شایع شدہ انتخاب ” نئی صدی کے افسانے ” میں ان کے دو افسانے شامل ہیں۔ جن کی عالمی سطح پر بے حد پذیرائی ہوئی تھی۔ میری رائے میں یہ مجموعہ اردو ادب میں نئی جہات کو متعین کرنے میں بے حد مد و معاون ثابت ہوگا۔
اس مجموعے کو انہماک انٹرنیشنل پبلی کیشنز 40۔ سی اردو بازار لاہور نے دسمبر 2017 میں شایع کیا ہے۔ جس کا اہتمام سید تحسین گیلانی نے کیا ہے ۔