بیا داد بونیت (Piedad Bonnett): کولمبیا کی شاعرہ کی دو نظمیں
ترجمہ و تعارف: یاسر چٹھہ
بیا داد بونیت (Piedad Bonnett) شاعرہ، تمثیل کار، ناول نگار اور یاد داشت نویس ہیں۔ آپ نے فلسفہ و ادب میں لاس آندریز یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد آرٹ اور آرکیٹیکچرل تھیوری میں نیشنل یونیورسٹی کولمبیا سے بھی گریجویٹ کیا۔ آپ کی شاعری کی آٹھ کتابیں اور کئی ایک مجموعات انتخاب شاعری شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی جانب سے اپنے بیٹے کی خودکشی کے تناظر میں تحریر کردہ یاد داشت (جو بعنوان Lo que no tiene nombre شائع ہوئی) کو ایک اہم ہسپانوی جریدہ El País کے ثقافتی شمارے کی جانب سے پچھلے پچیس برس کے دوران لکھی جانے والی 100 اہم ترین کتابوں میں نمایاں جگہ دی گئی۔
بیا داد بونیت کی تصنیفات کئی ایک ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس سلسلے میں 1994 میں انہیں اپنی شاعری کی کتاب El hilo de los días کے لیے قومی ایوارڈ برائے شاعری سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی اہم ایوارڈ بھی دیے گئے۔
1۔ باورچی خانہ ایک دنیا ہے
(اماں وکٹوریا کے نام)
باورچی خانے کی اپنی ایک دنیا ہے
صحرا ہے، اور رونے کی جا ہے
ہم وہاں موجود رہیں۔ دو مائیں، دھیمے لہجے میں باتیں کرتے رہیں
کہ جیسے فکر ہو کمرے میں بچے سو رہے ہیں
لیکن کمرے میں کوئی بھی تو نہ ہوتا تھا۔
صرف گونجتی خاموشی ہم دو ماؤں کے آس پاس ہوتی تھی۔
جہاں کبھی موسیقی کمرے کے در و دیوار کو بھرا کرتی تھی
ہم لفظ کو تلاشتی تھیں۔
اپنے چائے کے کپوں سے سرکیاں بھرتی تھیں
ماضی کی یادوں کے کسیلے کنویں کے اندر جھانکنے کی کوششیں کرتی تھیں
دو مائیں اس پل پر کھڑی ہیں جو انہیں باہم جوڑتا ہے
اس وقت دونوں اپنے اندر کے خلا کو اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ نظم پڑھنے کے بعد
نظم پڑھ چکی ہوں
اس مخمور گاؤں کے تھیٹر میں
کسی گزری عمر کی عورت کی طرح زرق برق لباس پہنے
ہم سب شاعر وہاں سے نکلنے لگتے ہیں
آہستہ سے، شاعرانہ انداز میں، طمانیت چہروں پر سجائے
پہلی صف میں بیٹھا وہ ایک نیم خوابیدہ شخص
سفید لباس پہنی میگنولیہ کی خوشبو لگائے دو خواتین
وہ ادب کے پروفیسر صاحب، اور پوری توجہ سے نوٹس لیتے طالب علم
اور والٹ وٹمین کی نظمیں پڑھنے والا وہ بے گھر انسان…
چاند کی توانا تاب ناکی میں اُدھر سے رگبی کی ٹیم کے کھلاڑی بھی آتے دکھائی دیتے ہیں
اتنے فاصلے سے کہ جہاں سے آواز سنائی دیتی ہے
وہ کھلاڑی مقامی ٹیم کے ساتھ کھیل میں مقابلہ برابر کر کے چہکتے آ رہے ہیں
اسی دوران وہ شاعر واپس آ جاتے ہیں جو باتھ روم تک گئے تھے
ان قُمقُموں کی لَڑیوں کے پیچھے سے
جہاں طوطی سوتے ہیں
یک دم ایک ڈرا دینے والا قطرہ سا گرا ہے
تب کی استعاروں سے تہی دامن اس ایک رات میں
شرماتا ہوا ایک نوجوان اپنی آنکھوں میں حیرانی لیے
ہمیں اپنا ہاتھ پیش کرتا ہے
یہاں پر ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔
آج اس کی خُوشی کا کوئی سماں نہیں۔
ہم اس کی تحسین میں اپنے سر ہلاتے ہیں اور اس نوجوان کو وہاں جاتے دیکھتے ہیں۔
وہ ایک دیہاتی لڑکا، اور شاعری!
ہم اپنے ہوٹل کی طرف واپس چلتے ہیں
عاجزی سے، شاعرانہ انداز سے، بے یقینی کو ساتھ لیے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.