پطرس بخاری نے کہا ، راوی کیا آج بھی مُغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے
عبدالقادر حسن
میں لاہور میں ہوں لیکن ایک دوسرے لاہور میں جو پُرانے لاہور سے دیوار بہ دیوار اُلجھا اور جڑا ہوا ہے لیکن میرے جیسے مہمان لاہوری کے لیے ایک دوسرا لاہور ہے۔ ایک جدید لاہور جس میں قدیم لاہور چھپا ہوا ہے جو اس میں شامل ہے لیکن کُھلتا نہیں ہے، ذرا پرے پرے ہٹ کر رہتا ہے۔ اس لاہور میں خواتین جدید انگریزی لباس بھی پہنتی ہیں اور پاکستانی لباس بھی پہن لیتی ہیں۔ لیکن میں نے دیکھا کہ یہی پرانی طرز کا پاکستانی لباس بھی چلتا ہے اور جدید لباس تو اس نئے لاہور کا لباس ہے یہی جو عام طور پر پہنا جاتا ہے اور یہی پسند بھی کیا جاتا ہے۔
خواتین پرانے لباس کو پسند نہیں کرتیں لیکن پھر بھی اسے پہن لیتی ہیں کہ کئی گھریلو تقریبات میں یہی چلتا ہے اور کسی حد تک پسند بھی کیا جاتا ہے۔ یہ سب میں نے باہر سے دیکھ کر مشاہدہ کیا ہے۔ یہ سب اس مشاہدے کی رپورٹ ہے اور مجھے یہ باہر سے دیکھ کر معلوم ہوئی ہے ورنہ ایک رپورٹر کی حیثیت سے مجھے اس کی تہہ تک جانا چاہیے کہ دو تہذیبوں کا یہ لباس کس طرح مل جل کر اور شیروشکر ہو کر زندہ اور استعمال ہو رہا ہے۔ اور کیا یہ اپنے اندر بعض تضادات کو برداشت کرتا ہے اور انھیں خوشی خوشی قبول کرتا ہے۔
اس لباس کی تبدیلی کو دیکھ کر مجھے ایک دفعہ پھر لندن کی یاد آئی ہے کہ جب بھی اس مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ کے حامل شہر کا دورہ ہوتا ہے تو ہر دفعہ اس کے کئی نئے پرت کھلتے ہیں اور نئی نئی باتیں سامنے آتی ہیں جو کہ ہم جیسے دیسیوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔
لندن کے جدید شہری جو مغربی لباس زیب ِتن کرتے ہیں ظاہر ہے کہ اپنے اس لباس کو پسند کرتے ہیں کیونکہ یہاں لباس کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ جدید اور جدید ترین لباس پہنیں یا اس شہر میں رہتے ہوئے اپنے مشرقی لباس کو یاد کریں اور زندہ کریں اس پر بھی انگلی نہیں اُٹھتی۔ بات لباس کی ہو رہی ہے لندن کا کوئی لباس نہیں ہے جو چلتا ہے چلے کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ یوں کہ لندن ایک آزاد معاشرے کا شہر ہے جس کے بارے میں سن سن کر جوان ہوئے اور جب اس شہر کو دیکھنے کا موقع ملا تو پھر صحیح صورتحال محسوس کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور لندن اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہیں۔ دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ لندن لندن ہے اور لاہور لاہور۔
دونوں ایک دوسرے کے پُرانے شناسا ضرور ہیں لیکن پھر بھی وہ الگ الگ ہیں اور لگتا ہے کہ الگ الگ ہی رہیں گے۔ جو لاہور لندن میں آباد ہے یا یوں کہیں کہ آباد ہو چکا ہے وہ اب راوی کے کنارے جا کر صبح و شام نہیں کر ے گا۔ راوی اس سے چھوٹ گیا اور چھوٹ کیا گیا بلکہ جدا ہو گیا اور دونوں نے اپنی اپنی دنیائیں الگ الگ کر لیں۔
دریائے راوی کی ایک جذباتی کیفیت کبھی مرحوم ادیب اور دانشور پطرس بخاری نے لکھی تھی۔ ایک خط میں انھوں نے اپنے دوست صوفی غلام مصطفی تبسم کو راوی دریا کو یاد کرتے ہوئے پوچھا کہ صوفی صاحب راوی کیا آج بھی مُغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ یہ بات راوی کے پرانے ہم نشین راوی کے ایک اور دوست لاہوری صوفی تبسم سے پوچھی گئی جو اس کے صحیح مخاطب تھے۔
بات لندن اور لاہور کے لباس سے شروع ہوئی لیکن دونوں شہر اپنی اپنی جگہ اتنے رومان پرور ہیں اور ان کی اپنی الگ الگ خصوصیات ہیں جو کہ ان کے باسیوں اور مہمانوں کو اپنا اسیر بنا کر رکھتی ہیں۔ اور ان شہروں میں قیام کرنے والے جب یہاں سے کسی دوسری جگہ جانے لگتے ہیں تو جسمانی طور پر تو وہاں ہوتے ہیں لیکن ان کا دل انھی خوبصورت شہروں میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ اور ان کی خوبصورت یادیں ان کی زندگی کا ایک حصہ بن کر ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جڑ جاتی ہیں۔
لاہور کے باسی جب بر صغیر کے پُرانے دارالحکومت لندن کا دورہ کرتے ہیں تو ان کو اپنایت کا ایک احساس ہوتا ہے جو کہ دنیا کے کسی دوسرے شہر میں نہیں ہوتا۔ شاید یہ پرانے تعلق کی بات ہے یا ہمارے اپنے لوگوں نے اتنی زیادہ تعداد میں وہاں بسیرا کر لیا ہے کہ لندن بھی اب لاہور سا لگتا ہے اور اجنبیت کی کوئی دیوار آپ کو محسوس نہیں ہوتی۔
لاہور کی ایک اور خصوصیت جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے باسی ہیں جو کہ خوش ذوق ہونے کے علاوہ اپنی خوش خوراکی کے طور پر بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں جن کی وجہ سے لاہور کے روائتی ریستوان کبھی بند نہیں ہوتے اور اپنے دروازے لاہوریوں کے لیے ہر وقت وا رکھتے ہیں کیونکہ معلوم نہیں ہوتا کہ کب یہ خوش خوارک لاہوری اپنے پسند کے کھانے کے لیے ان کا رخ کر لیں۔ اسی وجہ سے لاہور کے پرانے علاقوں کے علاوہ اب نئے لاہور میں بھی یہ رواج پڑ چکا ہے کہ کھانے کے بیشتر ریستوران اب دن کے علاوہ رات کو بھی کھلے رہتے ہیں۔
لاہور نے بڑے بڑے ادیب اور دانشور پیدا بھی کیے اور جو یہاں پر آئے ان کو اپنے دامن میں سمیٹ بھی لیا یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کو اپنی زلفوں کا اسیر کر لیا اور انھی نابغہ روزگار اور خوش ذوق لوگوں کی یادیں پرانے لاہور کے کونے کونے میں بکھری پڑی ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ راوی مغلوں کے ساتھ اپنے ان شاعروں، دانشوروں، ادیبوں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ہنگامہ برپا کرنے والوں کی یاد میں بھی ضرور آہیں بھرتا ہوگا کہ اس نے لاہور میں آنے والوں کو لاہور کی محبت میں گرفتار ہوتے بھی دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ راوی اس بات پر بھی پشیماں ہو تا ہو گا کہ اس کے لاہور کی نسبت آج کل کن لوگوں سے منسوب کی جاتی ہے۔
داتا گنج بخش کی نگری نے فیضؔ، بخاری اور کیا کچھ نہیں دیکھا جو قدرت نے خاص لاہور کی رونق کے لیے پیدا کیے تھے۔ ذرا چند صدیاں پیچھے جائیں تو ملکہ عالم نو جہاں جو جہانگیر بادشاہ کی ملکہ تھیں نہ جانے کسی لمحے لاہور کے پیار میں کہا تھا۔
لاہور را بجان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
لاہور کو ملکہ عالم نور جہاں کی جنت کہیں تو یہ ملکہ عالم کی اردو زبان میں ترجمانی ہو گی۔
بشکریہ ایکسپریس اردو، جہاں یہ مضمون بعنوان، لاہور، نور جہاں کا پایہ تخت شائع ہوا۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.