فلم پی کے میں کھویا ہوا بھگوان

پی کے PK

فلم پی کے میں کھویا ہوا بھگوان

از، محمد بلال خان

فلم پی کے ایک ہندی فلم ہے جس کا موضوع ہندی سینما کی روٹین فلموں سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ یہاں پی کے سے مراد پاکستان نہیں گوکہ اس فلم میں پاکستان کا بھی ذکر ہے اور یہ ذکر اچھے اور مثبت انداز میں ہے بلکہ ایسا شخص ہے جو شراب پیتا ہو لیکن اس فلم میں پی کے پان تو ضرور کھاتا ہے لیکن پیتا نہیں ہے مگر پھر بھی اسے ہر کوئی پی کے نام سے پکارتا ہے اور پھر یہی نام فلم کے مرکزی کردار کا اختتام تک رہتا ہے۔

فلم کو ڈائریکٹ کیا ہے راج کمار ہیرانی نے اور مرکزی کردار پی کے ادا کیا ہے عامر خان نے۔ یہاں یہ بات یقین اور دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس کردار کو عامر خان کے علاوہ کوئی کرتا تو شاید فلم کامیاب نہ ہوپاتی۔ فلمی دنیا میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایک اداکار پر مکمل پورے اترتے ہیں، عامر خان نے پی کے کے کردار کو نہایت ہی شاندار انداز سے ادا کیا ہے۔ فلم کے مشہور ہونے کی خاص وجہ بھی عامر خان اور فلم کا موضوع ہیں۔ فلم کی کہانی کو تحقیق اور خوبصورتی سے لکھا گیا ہے اور اسی طرح خوبصورتی سے فلمایا بھی گیا ہے۔

پی کے کا موضوع بالی وڈ کی فلم او مائی گاڈ سے ملتا جلتا ہے۔ پی کے کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ جیسے انسان دوسرے سیاروں پر زندگی کو ڈھونڈنے کے لیئے تحقیق کرتے ہیں اور ان پر جاتے ہیں اسی طرح ممکن ہے کہ کسی سیارے پر زندگی ہو اور وہاں کے لوگ اس دنیا پر تحقیق کے لیئے آرہے ہوں۔ اسی طرح ایک اسپیس شپ راجھستان بھارت میں اترتی ہے جس میں سے پی کے یعنی عامر خان زمین پر قدم رکھتے ہیں۔ اسی صحرا میں پی کے کا ریموٹ کنٹرول جو دراصل اسپیس شپ کو واپس بلانے کا ذریعہ ہوتا ہے ایک چور چھین کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کے بعد فلم میں کچھ روائیتی مزاح اور گانے شامل ہیں۔ فلم کی اصل کہانی دوسرے حصہ میں شروع ہوتی ہے جب پی کے اپنا ریموٹ کنٹرول تلاش کرنا شروع کرتا ہے۔

وہ مختلف لوگوں سے پوچھتا ہے پولیس کے پاس بھی جاتا ہے سب اس سے یہی کہتے ہیں کہ تمہاری مدد صرف بھگوان ہی کرسکتا ہے یہاں سے وہ حصہ شروع ہے جس پر بھارت میں کافی شور جاری ہے۔ پی کے کو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ہر انسان بھگوان یا خدا کو مانتا ہے اور اس کی کہی باتوں پر عمل کرتا ہے اور عبادت کرتا ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ بھگوان کہاں ہے۔ پی کے پہلے تو اپنا مذہب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کس مذہب کا ہے لیکن وہ ناکام رہتا ہے پھر وہ تمام مذاہب کی تعلیمات پر عمل شروع کردیتا ہے کہ شاید کسی مذہب کا بھگوان اس کی مشکل حل کردے۔ اسی طرح مذہب کے بارے میں فلم جاری رہتی ہے جس میں مذہب کے نام پر کافی غلط عمل اور باتیں جن پر عمل کیا جاتا ہے کو بھی سوال بنایا گیا ہے یہ حصہ آپ فلم دیکھیں تو زیادہ اچھا لگے گا۔


مزید دیکھیے: سنجو کی کہانی


اسی طرح ایک دن پی کے کو ایک دن اپنا ریموٹ نظر آتا ہے جسے ایک ہندو گرو بھگوان شیو کی ڈگڈگی کا ٹوٹا ہوا “منکا” کہ کر کر اور اس سے کہانیاں جوڑ کر کہ جو اس کو دیکھے کا اس کی تمام مشکللیں حل ہوجائیں گی، ایک مندربنانے کے لیئے پیسے جمع کررہا ہوتا ہے جہاں اس ریموٹ کو رکھا جائے۔ یہاں سے پی کے اپنا ریموٹ اس گرو سے حاصل کرنے کے لیئے کوشش شروع کرتا ہے جس میں پی کے کی مدد انوشکا شرما یعنی فلم میں جگت جنانی (جگو) جو کہ ایک صحافی ہوتی ہے کرتی ہے۔ یہاں سے رانگ نمبر والی کہانی شروع ہوتی ہے جسے یہاں لکھ دیا جائے تو فلم دیکھنے میں لطف نہیں آئے گا اس کے لیئے ضروری ہے کہ آپ فلم دیکھیں کہ پی کے یہ رانگ نمبر کی کہانی دراصل اور درحقیقت کیا ہے۔

یہ فلم اور اس کی کہانی بھگوان خدا یا کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ہر مذہب کے بڑے یا بقول پی کے مینیجرز کے خلاف ہے جیسے ہندو مذہب کے غلط گرو اور مسلمانوں کے غلط عالم/ عامل اور پیر بابا حضرات۔
فلم کو گانوں وغیرہ کو ختم کرکے فیملی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں اور آپ یقینا اس فلم کو دوسری بار دیکھنے پر مجبورہوں گے۔

پی کے کے چند ڈائیلاگ:

نام کچھو ناہی ہے ہمار لیکن پتہ نہیں کاہے سب لوگ ہمکا پی کے – پی کے بلاوت ہے۔

سیلف ڈیفینس، جس طرح دیوار پر بھگوان کا فوٹو لگاتے ہیں نہ کہ کوئی موتے نہیں اس طرح ہم نے یہ بھگوان کا فوٹو چپکا لیا کہ کونو پیٹے نہیں۔

جب کوئی گھر نہیں جا پاتا ہے ہمیں اچھا فیلنگ نہیں ہوتا ہے۔

اصلی گاڈ فرق بناتا تو ٹھپا لگا کے بھیجتا، ہے کوئی ٹھپہ باڈی پے؟

اپنے اپنے بھگوان کی رکشا کرنا بند کرو ورنہ اس گولے میں انسان نہیں بس جوتا رہ جائے گا۔

فلم پی کے کو بھارت کے چند لوگ خاص کر گرو حضرات پاکستان کی سازش کہ رہے ہیں اور عامر خان کے حج کرنے کو بھی اسی سازش کا حصہ قرار دے رہیں ہے ڈر ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اس سازش کے مڈل پرسن مولانا طارق جمیل ہیں۔

پی کے جیسی فلمیں بنتی رہنی چاہیے۔ فلحال پاکستان میں یہ بہت مقبول ہے لیکن اگر ہماری قوم کو دیکھا جائے اور ایسی کوئی فلم پاکستان میں بن جائے تو ہمارے یہاں تو فوراً واجب القتل کا فتوٰی آنے میں دیر نہیں لگے گے۔