بڑھتا ہوا درجۂِ حرارت، پلاسٹک اور زمینی حیاتیات کی بقاء کو خطرہ
از، اشرف جاوید ملک
نئے سال 2020 کا آغاز ہوتے ہی جہاں لوگ موسموں کی شدت سے پریشان ہوئے ہیں وہیں پر جانوروں پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
ہم انسانوں نے ماحول کا خیال نہ کرتے ہوئے جو غلطیاں کی ہیں ان کے نتائج آسٹریلیا میں جھاڑیوں میں لگنے والی آگ ہے کہ جس سے ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑے جنگلات جل گئے اور ان جنگلات میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل کے پانچ ارب سے زیادہ جانور جل کر ہلاک ہو گئے ہیں۔
اس ہولناک آگ کے مُضر اثرات تین ہزار کلومیٹر دور نیوزی لینڈ تک دیکھے جا رہے ہیں جہاں کے برفانی پہاٹوں کی سفیدی پیلاہٹ میں بدل رہی ہے۔
ایمازون کے جنگلات میں بھی ایسی ہی قیامت دیکھنے میں آئی ہے جہاں دو مہینے تک آگ لگی رہی ہے۔ جرمنی میں بھی کچھ لوگوں کی غفلت سے چڑیا گھر جل گیا ہے جہاں پر موجود گوریلے اور بندر اب راکھ ہو چکے۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں آنے والے سمندری طوفان نے تیس ہزار سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کیا، جب کہ اکیس افراد اس طوفان میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
دنیا کے موسم تیزی سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی امسال سردیوں نے گذشتہ باون سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ آنے والی گرمیوں کا موسم بھی اسی طرح سے شدید ترین ہونے کا امکان ہے۔
تیل بردار جہازوں سے بہنے والا تیل سمندری ساحلوں پر موجود آبی جانوروں کی جان لے رہا ہے۔ نایاب کچھوے، جھینگے، کیکڑے اور ہزاروں مچھلیاں تیل کی اس آلودگی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔
بجلی پیدا کرنے کے لیے تھر اور ساہی وال کول پاور پروجیکٹس ماحولیاتی آلودگی پیدا کر رہے ہیں۔
جہاں جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا اور دوسرے یورپی ممالک اپنی ضرورت کی بیس سے سینتالیس فیصد بجلی ہوا کے ذریعے پیدا کرنے کے لیے انتظامات کو سو فیصد حتمی شکل دے چکے ہیں اور وہاں پر شاپنگ بیگ اور پلاسٹک مصنوعات کے استعمال کو بھی ختم کرنے، یا پھر ان مصنوعات کو کم سے کم استعمال کرنے کے قوانین کی طرف لایا جا رہا ہے۔ ہم اس حوالے سے مناسب اقدامات کرنے، یا قوانین نافذ کرنے میں بہت پیچھے ہیں۔
استعمال شدہ پلاسٹک کی اشیاء اور کچرے کو ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا اور یہ زمین اور شہری آبادیوں کے لیے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہو رہا ہے، کیوں کہ ان کے ضائع نہ ہو سکنے والے اجزاء جانوروں کے ہاضمہ کے نظام کو تباہ کر کے ہزاروں آبی اور زمینی جانوروں یعنی کتوں، بلیوں اور پرندوں کی موت کا سبب بنتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ امیر ممالک کی استعمال شدہ پلاسٹک کی اشیاء اور آلات سے انکار کریں۔ اور ملکی مصنوعات پر ہی انحصار کریں ورنہ ملک میں ضائع نہ ہو سکنے والی پلاسٹک اور فضلہ جات کا ڈھیر لگ جائے گا۔ جس سے ماحولیاتی آلودگی میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔
ہم ترقی پذیر ملک کہلواتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف بہتر منصوبہ بندی کرنے اور سائنس و ٹیکنالوجی کی بہتر عملی تعلیم و تربیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ہم تیسری دنیا نہیں ہیں۔ کوئی بھی ایٹمی طاقت تیسری دنیا نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا جیسی کم زور بیرونی اصطلاح کے استعمال کو ترک کرنا ہی ہمارے وقار میں اضافے کا باعث ہو گا۔
ہمیں ہر ایک شعبۂِ زندگی میں صفائی کے معیار کو بہتر بنانا ہو گا۔ فُضلہ جات کو ری سائیکل کرنا، یا فوری طور پر تلف کرنا ہو گا چاہے وہ شہری آبادی کے ہوں، یا ہسپتالوں اور کارخانوں کے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم کیمیکلز کو غذائی اشیاء، مصنوعات اور زراعت سے حاصل ہونے والی اجناس پھلوں اور سبزیوں میں شامل نہ ہونے دیں۔ سیوریج کے پانی اور گندگی کو صاف پانی میں شامل نہ ہونے دیں تا کہ کیمیکلز غذائی اجزاء میں شامل نہ ہو پائیں۔ ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کو ہر ممکن طور پر صاف ستھرا رکھیں اور کچرے کی افزائش نہ ہونے دیں۔
اگر یہ گند اور کچرا بڑھتا رہا تو ہمارے دریا اور سمندر آنے والے ادوار میں بری طرح سے متاثر ہوں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم توانائی کے متبادل سستے اور آسان ذرائع پر انحصار کریں۔ بیرونی قرضہ جات اتارنے میں جلدی کریں، تا کہ آنے والے وقت میں ہم قرض لینے کی بَہ جائے دوسرے ممالک کو قرض دینے کے قابل ہو جائیں۔ اس طرح سے ہم ملائشیا اور ترکی کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ بات صرف کرپشن کے خاتمے کا عہد کرنے اور کرپشن کو ختم کرنے کی ہے۔ اگر ہم اپنے اداروں کو مضبوط ہونے دیں تو ہم یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ہر مہینے گیس اور بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایل پی جی گیس جو نوے روپے فی کلوگرام تک مل رہی تھی اس میں سو گنا تک اضافہ کر دیا گیا ہے، جب کہ بجلی کے فی یونٹ نرخ موجودہ دو سال میں بیس فیصد تک بڑھائے جا چکے ہیں۔
پاکستان ایٹمی ملک ہے۔ پانی اور کوئلے کو ترجیح نہ دے کر دوسرے جدید تر ذرائع سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جیسا کہ وِنڈ انرجی یا ایٹمی توانائی سے بجلی پیدا کرنا۔ مگر ہم صرف بیان بازی تک محدود ہیں۔
عرب شہزادوں نے ہمارے صحراؤں کو تلور، بٹیر، تیتر، باز اور دوسرے نا یاب پرندوں سے خالی کر دیا ہے۔
شکار کی آزادی کی وجہ سے طوطوں کی نسل ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے، جب کہ رہی سہی کسر مقامی شکاریوں نے ہرنوں اور پردیسی کونجوں کا بے دریغ قتل کر کے پوری کر دی ہے۔
اس وقت ہمارے ہاں بَہ مشکل ڈھائی دریا بہہ رہے ہیں۔ آدھا جہلم، آدھا چناب آدھے سے کم راوی اور سندھو دریا پر ہی سارا انحصار ہے۔ بھارتی آبی جارحیت کے اثرات نے سرائیکی وسیب، چناب اور سندھ کے میدانی علاقوں کو متاثر کیا ہے اور اگر پانی کی کمی کا یہ عمل اسی طرح سے جاری رہا تو آنے والا دور ملتان، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ اور میانوالی تک کے بڑے علاقوں کو خشک سالی کی طرف دھکیل دے گا اور یہ علاقے بھی تھل، دامان، روہی اور چولستان جیسا نقشہ پیش کریں گے۔
ملک میں موجود آبی وسائل اور آبی ذرائع کو بہتر بنایا جانا ضروری ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کے فنڈ کا حساب و کتاب سامنے رکھ کر اس منصوبے پر بلا تاخیر کام کا آغاز کر دینا چاہیے۔ کالا باغ ڈیم سے ہٹ کر اگر پانی کی تقسیم کے عمل کو متوازن اور منصفانہ بنا دیا جائے تو ہم آنے والے ادوار کی قحط سالی کا پیشگی تدارک کر سکتے ہیں۔
اگر تمام علاقوں کو وفاقی اور مقامی حکومتیں وسائل فراہم کریں اور سرائیکی وسیب کو بھی ایک الگ انتظامی اور حکومتی حیثیت دے کر صوبہ بنا دیا جائے تو فوجی رجمنٹس کے قیام اور انتظامی وسائل کی آسان فراہمی سے نہ صرف دفاع کا شعبہ اور زیادہ مضبوط ہو جائے گا بَل کہ ان علاقوں میں وسائل کی بہتر اور تیز تر فراہمی سے یہاں کے لوگ تیز تر ترقی کر پائیں گے۔ جس سے پاکستان کے فطری اور قدرتی ذرائع کو باہم جڑنے اور بہتر ہونے کا موقع ملے گا، کیوں کہ انسانوں، جانوروں، پرندوں اور پودوں سبھی جان داروں کا اس ملک کے climate change میں برابر کا حصہ ہے۔
اگر ان سب کی انفرادی زندگی کو بہتر بنانے کا عمل اجتماعی طور پر منافع بخش، متوازن اور فعال بنا دیا جائے تو ملکی ماحولیات کی بہتری اور پائیدار ترقی کا عمل بہتر سے بہتر ہو جائے گا۔ شاید اس میں آنے والی نسلوں کی بقاء اور امن کی بَہ حالی کا عمل موجود ہو۔