میں ستر برس کا ہو گیا ہوں اور عدالت میں ہوں، قسطِ اوّل
از، افلاطون
انگریزی سے ترجمہ از، نصیر احمد
ایتھنز کے باسیو، میں بتا نہیں سکتا کہ مجھ پہ الزام دھرنے والوں سے تم کیسے متأثر ہوئے ہو، لیکن وہ ایسے متأثر کن انداز سے سخن سرا ہوئے ہیں کہ میں خود بھی بھول گیا ہوں کہ میں کون ہوں۔ اس کے با وجود بھی انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا جو سچ ہو۔
انھوں نے بہت جھوٹ کہے لیکن ایک نے تو مجھے بھی دنگ کر دیا۔ میرا مطلب ہے جب انھوں نے تم سے کہا کہ مجھ سے چوکنّے رہو اور میرے جوشِ فصاحت کے دام میں آنے سے گریز کرو۔ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ میرے لیے تو یہ بات باعثِ ننگ ہے کہ جیسے ہی مُنھ کھولوں اور وہ بوجھ لیں کہ میں ایک عظیم مقرر ہوں۔
معاملہ دیگر ہو جاتا ہے اگر وہ جوشِ خطابت سے قوتِ صداقت کے معنی اخذ کر رہے ہوں۔ اگر وہ واقعی یہ معانی اخذ کرتے ہیں تو میں واقعی فصیح ہوں، ان سے لیکن میں مختلف کیسے ہوں؟ تو میں کہہ ہی چکا ہوں کہ انھوں نے شاید ہی کچھ سچ کہا ہو۔ اور مجھ سے تم کامل صداقت ہی سنو گے۔
لیکن یہ سچ میں ان کے نپے تلے انداز میں محاوروں اور استِعاروں سے سجی تقریر کی صورت میں نہیں کہتا۔ نہیں، فلک کی قسم، میں وہی الفاظ برتتا ہوں جو مجھے سوجھتے ہیں کہ مجھے اپنے مقصد کی حقانیت پر بہت اعتماد ہے۔ زندگی کے اس سمے مجھے تمھارے سامنے پیش تو نہیں ہونا چاہیے۔ اے ایتھنز کے باسیو، مجھ سے بچگانہ مقرر کے کردار کی توقع مت رکھنا۔
مجھ پر ایک مہربانی ضرور کرنا اگر تم مجھے اس انداز میں دفاع کرتے دیکھو جس کا میں عادی ہوں اور تم مجھ ایسے الفاظ سنو جو میں ایگورا میں اور پیسے تڑوانے والوں کی دکانوں میں اور کہیں بھی استعمال کرتا ہوں تو میں تمھاری مِنّت کرتا ہوں کہ حیران مت ہونا اور میری بات مت کاٹنا اور مجھے کہنے دینا جو میں نے کہنا ہے: کیوں کہ میں ستّر سال سے زیادہ کا ہو چکا ہوں اور زندگی میں پہلی بار قانونی عدالت میں پیش ہو رہا ہوں۔
میرے لیے اس جگہ کا طرزِ گفتگو اجنبی ہے اور میں چاہوں گا کہ تم بھی مجھے اجنبی ہی سمجھنا جسے تم اپنی زبان میں اپنے ملک کے انداز میں بات کرنے کی اجازت دیتے ہو۔
تم سے میں کیا کوئی غیر منصفانہ مطالبہ کر رہا ہوں؟ انداز پہ بہت توجُّہ نہ دو، انداز تو اچھا ہو بھی سکتا ہے نہیں بھی مگر میری بات کی سچائی کے بارے میں سوچو اور اس پر توجہ دو۔ کہنے والے کو سچی کہنے دو اور منصف کو انصاف سے فیصلہ کرنے دو۔
پہلے تو مجھے پرانے الزاموں کا جواب اور اوّلین الزام دھرنے والوں کو جواب دینا پڑے گا۔ اس کے بعد میں دوسروں کی طرف بڑھوں گا۔
پرانے دنوں کے بہت سارے الزام دہندگان ہیں اور ان بہت سے سالوں میں انھوں نے مجھ پر جھوٹے الزام دھرے ہیں۔ اگر چِہ اپنی طرز میں اینیٹس اور اس کے ساتھی بھی کافی خطر ناک ہیں لیکن میں اپنے ان قدیم مہربانوں سے زیادہ ڈرا ہوا ہوں۔ ان سے بھی زیادہ خطر ناک وہ دوسرے ہیں جو تب شروع ہوئے تھے جب تم میں زیادہ تر بچے تھے اور اپنے جھوٹ کو تمھارے دلوں میں راسخ کر دیا تھا۔
یہ لوگ ایک سقراط کی بات کرتے تھے، ایک دانا شخص جو سروں کے اوپر آسمان کے بارے میں تفکر کرتے تھے اور زمین کی تہہ تلاشتے تھے کہ بد ترین کو بہتر دکھا سکے۔
اس کَتّھا کو پھیلانے والے الزام دہ میرا دل دہلا دیتے ہیں کہ ان کے سننے والے ایسے سمجھنے لگتے ہیں کہ اس طرح کی تحقیق کرنے والے دیوتاؤں کے وجود کو نہیں مانتے۔ یہ بہت سارے ہیں اور ان کے الزام کافی پرانے ہیں اور یہ الزام ان دنوں میں عائد کیے گئے تھے جب تم لوگ آسانی سے متأثر ہو جاتے تھے یعنی تمھارے بچپن کے دنوں میں۔
تمھاری جوانی کے دن بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ باتیں ہوتی رہیں اور ذہنوں میں بستی گئیں کہ ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ اور سب سے مشکل تو یہ ہے کہ مجھے اپنے پر الزام دھرنے والوں کے نام بھی یاد نہیں۔ ہاں کسی طربیہ شاعر کے اتفاقی کیس میں مجھے نام یاد ہے۔
ان سب نے حسد یا بد طینتی کو کام میں لاتے ہوئے تمھیں قائل کر لیا ہے۔ کچھ نے تو تمھیں قائل کرنے سے پہلے خود کو قائل کیا تھا۔ اس طبقے کے لوگوں سے معاملہ کرنا سب سے زیادہ کٹھن ہے کہ میں انھیں یہاں بلا نہیں سکتا اور ان سے سوال جواب کر نہیں سکتا۔
اس لیے یہاں مجھے اپنے دفاع میں سایوں سے ہی جھگڑنا پڑے گا اور دلیلیں دینی پڑیں گی جن کا جواب دینے کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔
تو میں تمھاری سماجت کرتا ہوں کہ میرے سنگ فرض کر لو جیسے میں نے کہا ہے کہ میرے دو قسم کے مخالفین ہیں۔ کچھ نئے اور کچھ پرانے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تم پرانوں کو جواب دینے کی موزونیت جانچ لو گے کہ یہ الزامات تم نے دوسرے الزاموں سے پہلے سنے ہیں اور یہ الزام تم بچپن سے ہی سنتے آئے ہو۔
اب میں اپنی صفائی پیش کرتا ہوں اور اس مختصر سے عرصے میں دیرینہ بہتان ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ کاش میں کام یاب ہو جاؤں اگر کام یابی میں میرا اور تمھارا بھلا ہے۔ اور اگر کام یابی کے معنی میرے مقصد کا پورا ہونا ہے۔ یہ کام اتنا سہل تو نہیں ہے۔ میں اس کی نوعیت اچھی طرح سے سمجھتا ہوں۔ تو اپنا معاملہ سپردِ خدا کرتے ہوئے، قانون کی اطاعت کرتے ہوئے میں اپنی صفائی پیش کرتا ہوں۔
میں شروعات سے شروع کرتا ہوں اور اس الزام کے بارے میں بات کرتا ہوں جس نے میرے خلاف بہتان انگیخت کیے تھے کہ اسی الزام نے تو میلیٹس کو ابھارا ہے کہ میرے خلاف مقدمہ کرے۔ بہتان تراش کہتے کیا ہیں؟
وہی مدعی ہیں اور میں ان کے الفاظ اس تصدیقی بیان میں مجتمع کرتا ہوں۔ سقراط بد کار ہے، متجسس ہے جو تہہ زمین اور فلک میں اشیاء تلاشتا ہے اور بد تر کو بہتر دکھلاتا ہے اور اپنے یہ نظریے اوروں کو سکھلاتا ہے۔
الزامات کی نوعیت یہی ہے۔ اور ارسٹوفینیز کے طربیے میں تم لوگوں نے یہی تو دیکھا ہے۔ اس نے ایک ادا کار کو سقراط بنا کر دکھایا ہے جو ہواؤں میں اڑتا ہے اور ان معاملات پر بے ہودہ بکتا ہے جن کے بارے میں کم یا زیادہ جاننے کی میں نے تو کبھی بناوٹ بھی نہیں کی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں فلسفۂِ فطرت کے طالب علموں کے بارے میں نا پنسدیدگی کا اظہار کر رہا ہوں۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میلیٹس نے میرے خلاف اتنا سنجیدہ مقدمہ دائر کیا ہے۔ ایتھنز کے باسیو، سادہ سی سچی بات یہ ہے کہ طبیعاتی تفکر سے میرا کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ جو یہاں موجود ہیں اس سچ کے گواہ ہیں اور انھی سے میں اپیل کرتا ہوں۔
تم وہ جنھوں نے مجھے سنا ہے، بات کرو اور اپنے پڑوسیوں کو بتاؤ کہ کیا تم نے مجھے کبھی ان معاملات پر کم یا زیادہ لفظوں میں بات کرتے سنا ہے؟ اور تم سب ان کی سنو کہ فردِ جرم کے اس حصے کے بارے میں یہ لوگ کیا کہتے ہیں تا کِہ تم باقی کی سچائی کی منصفی کر سکو۔
یہ بات بھی بہت کچی ہے کہ میں ایک استاد ہوں اور پڑھانے کے پیسے لیتا ہوں۔ اس الزام میں دوسرے الزام کی طرح سچائی نہیں ہے۔ با اِیں ہمہ اگر کوئی شخص نوعِ انسان کو تعلیم کرنے کے قابل ہے اور تعلیم دینے کے عوِض پیسے لیتا ہے تو میرے خیال میں اس کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے۔
لیونٹیم کا گورجئیس ہے اور سیوس کا پروڈیکس ہے اور ایلس کا ہپئیس ہے جو شہر شہر گھومتے ہیں اور نو جوانوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو چھوڑ دیں جو شاید انھیں مفت پڑھا دیں بل کہ ان استادوں کے پاس آئیں اور نہ صرف پڑھنے کے پیسے دیں بل کہ ان استادوں کے شکر گزار بھی ہوں کہ وہ ان نو جوانوں کو پڑھنے کے لیے پیسے دینے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
ان دنوں پیروس کا ایک فلسفی ایتھنز میں رہتا ہے جس کے بارے میں نے سنا ہے اور کچھ ایسے سنا ہے۔ میں ہپونیکس کے بیٹے کیلئیس سے ملا جو سوفسطائیوں پر دولت کا ایک جہان نچھاور کر چکا ہے اور اس سے میں نے پوچھا کیلئیس اگر تمھارے دونوں بیٹے مرغے یا بچھڑے ہوتے تمھیں ذرا بھی دشواری نہ ہوتی کی کسی کو ان کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کر سکو۔ ہم کوئی سائیس یا شاید دہقان نوکر کر لیتے جو ان کے اپنے وصف اور خوبیاں بہتر بنا لیتا اور ان کی ان خوبیوں اور اوصاف میں تکمیل کر دیتا۔
لیکن یہ چوں کہ انسان ہیں اور تم کسے ان کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کرنے کا سوچ رہے ہو؟ کوئی ایسا ہے جو انسانی اور سیاسی خوبیاں سمجھتا ہے؟ تم نے اس مسئلے پر سوچا تو ضرور ہو گا کہ تمھارے بیٹے ہیں۔ کوئی ہے کیا؟
پیروس کا ایونس۔ کیلئیس نے جواب دیا۔ یہ وہ شخص ہے اور مجھ سے پانچ مائنی (سقراط کے زمانے کے سکے) لیتا ہے۔ ایونس خوش بخت ہے میں نے خود سے کہا اگر واقعی وہ دانا ہے اور اتنی مناسب قیمت لیتا ہے۔ اگر یہ مجھے ملتے میں تو نخوَت اور غرور میں مبتلا ہو جاتا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرے ہاں اس طرح کا علم ہی نہیں ہے۔