وزیر اعظم کا ویژن اور قومی فیصلے؟
تجزیہ کار، نعیم بیگ
عمران خان کا حقیقی سماجی و تہذیبی ویژن کیا ہے؟ اسے ابھی میڈیا مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا ہے، کیوں کہ ان کا ماضی بہ یک وقت تین ادوار میں منقسم رہا ہے: پہلا دور کھلاڑی کے طور پر مغربی سوسائٹی سے بے حد قربت، جو شادی پر منتج ہوا؛ دوسرا عہد اسی پہلے دور کا تسلسل، پاکستانی لبرل سوسائٹی اور آزادئِ اظہار سے رغبت اور شادی؛ اور آخری پھیلاؤ مشرقی اطوار پر مبنی مذہبی قرابت داری اور صوفیانہ طرزِ فکر اور بود و باش اور شادی۔ گو یہ ان کی زندگی کے ذاتی پہلو ہیں جس سے ایک عام شخص کو کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جب سیاست کی بستی میں عِنانِ حکومت سنبھالے آپ کو کروڑوں افراد کی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے ہوں اور ملکی سربراہ کے طور پر آپ کی انگلی ایٹم بم کے بٹن پر ہو، تب شخصی و ذاتی فکر و فہم بے حد احتیاط سے پرکھی جاتی ہے، کیوں کہ اکثر انسانی فیصلے اسی سوچ کے تابع ہوتے ہیں۔
گو ان کے سیاسی ویژن کا اندازہ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی سیاسی سر گرمیوں اور عملِ پیہم سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ تمام تر اچھائیوں کے با وجود مُتَلَوّن مزاجی ان کا خاصا ہے۔ 18 اگست سے پاکستان کی مشکل ترین حکم رانی کی باگ ڈور سنبھالنے اور حکم رانی کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہی انہوں نے کئی ایک اطراف میں غیر معمولی تیزی دکھائی۔ انہوں نے سب سے پہلے سادگی پر فوکس کیا ہے۔
سادگی بہت اچھی بات ہے، لیکن میڈیا میں جس طرز پر وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش، کاروں اور بھینسوں کی نیلامی، کام کرنے کے دفتری اوقات، ہیلی کاپٹر شٹل سروس، وی آئی پی کلچر ختم کرنے کے انتطامی آڈرز جیسے انتظامات حکم رانوں کے اندازِ سیاست اور اِن کے سیاسی ویژن کو بہ خوبی ظاہر کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیش تر اقدامات کی وجہ حکومتی خزانہ خالی ہے، بتایا جا رہا ہے۔ لیکن اس میں وزیر اعظم کی ذاتی پسند و نا پسند بھی یک طرفہ طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔
انہی حالات میں حکومت معاشی حالات کی زبوں حالی، جس کا اب تواتر سے ذکر ہو رہا ہے، کرتے ہوئے مِنی بجٹ لا چکی ہے۔ بجلی، گیس، اور دیگر سینکڑوں اشیاء کی قیمتیں بڑھائی جا چکی ہیں۔ پٹرول قابو سے باہر ہو رہا ہے۔ جس سے مزید قیمتیں بڑھیں گی۔ مہنگائی کا جن اب بوتل سے نکل چکا ہے۔ چلیں اس کے با وجود قوم سمجھ رہی ہے کہ شاید بیان کی گئی صورتِ حال خوش نیّتی bonafides پر مبنی ہو، کیوں کہ اِن حالات میں انتظامی اور گورننس کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔
مزید و متعلقہ: ذاتی زندگی پر پبلک کے حق کی برتری کی سرحدیں از، فاروق احمد
نو جوانوں کے خواب، عمران خان اور ہمارے تنقیدی رویے
لیکن ہمیں ابھی بہت سی دیگر سر گرمیوں کو دیکھنا ہے۔ آپ میڈیا میں یہ کہہ کر کہ “ابھی اندرونِ خانہ بہت سے کام سنبھالنے ہیں،” اقوام متحدہ کے اجلاس میں نہیں گئے، حالاں کہ سفارت کاری اور دنیا کے سامنے نئی حکومت کا دانش مندانہ اور عالمی امیج بنانے کا یہ ایک بہترین موقع تھا، کیوں کہ جس نہج پر علاقائی پالیٹکس اور جنگ و جدل کا سماں ہمارے اطراف میں ہے اس میں پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر نئی شناسائی ایک بہترین ہتھیار بنتی، جسے حکومت نے اقوامِ متحدہ نا جا کر کھو دیا۔
چلیے بھول جائیے، عمران خان ابھی بہت مصروف ہیں، لیکن یہاں کیا ہوا۔ خارجہ پالیسی پر انڈیا کو اس قدر پھرتی سے خط لکھنے کی یک طرفہ کوشش، امریکی وزیر چند گھنٹوں کے لیے آئے۔ رسمی ملاقاتیں کیں اور شرائط کی ایک لِسٹ پکڑا کر نکل گئے۔ فرانس کے صدر کی بات چیت کا معاملہ، انڈیا کو خط لکھے جانے اور اس کے جواب میں پہلے ہاں اور پھر نفی، اس کے بعد فوراً بپن راوت کی دھمکیاں۔ اس سے پہلے سعودی عرب کا دورہ ایک گہری سوچ، فکر و نظر کا متقاضی ہے۔
ان اہم اقدامات کو کرنے سے پہلے پارلیمان میں ڈسکس ہونا لازم تھا۔ یہ ایسے معاملات نہیں کہ انہیں انتظامی سمجھا جائے۔ یہ پالیسی معاملات ہیں، ان پر قومی مشاورت لازم تھی اور ہے۔ ہندوستان سے ہمیں کیا لینا ہے، کیا دینا ہے۔ ہمارے دو طرفہ تعلقات کی نئی بساط کیسے بچھائی جائے گی، کون سی چال پہلے چلی جائے گی یہ ایک شاطرانہ کھیل ہے، جسے آمرانہ طریقوں سے نہیں نبٹایا جا سکتا۔ علاقائی معاملات کس طرح سے ایک آزادانہ اور غیر جانب دارانہ خارجہ پالیسی کے تحت آئیں گے اس پر پارلیمان میں بحث ہونا لازم ہے۔
ہمارے ہاں حکومت کرنے کی انتظامی اجازت جو ووٹ سے ملتی ہے اسے یہ غیر معمولی معانی دے دیے جاتے ہیں کہ وہ اب بلا خوف و خطر ہر عمل کا لائسنس رکھتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ووٹ سے آپ کو گورننس کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے آپ انتظامیہ ہوتے ہیں جب کہ پارلیمان ہی تمام آئینی طاقت کے تحت پالیسی معاملات کو چلاتی ہے۔ جمہوریت میں کسی بھی قومی مسئلہ کو پارلیمان میں لائے بغیر اس پر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ آئین اس ضمن میں واضح ہے۔
یہ اس صورت میں اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب آپ دنیا کی چھٹی یا ساتویں ایٹمی قوت بھی ہوں، اور خطرات سامنے نظر آ رہے ہوں۔ آج ہی آرمی چیف نے ایئر یونیورسٹی میں سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “تمام خطرات سے مربوط قومی پالیسی کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔” اب یہ مربوط پالیسی کہاں بنے گی؟ اس کا حکومت وقت کو ادراک ہونا لازم ہے۔ یہ پارلیمان ہی ہے جہاں ایسی پالسیاں بنیں گی۔
ابھی یہ سارے معاملات یوں ہی ساکت پڑے تھے کہ آپ نے ایک نیا شوشا چھوڑ دیا، جس میں افغانی، بنگالی، نیپالی اور دیگر پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بڑوں کی شہریت کا معاملہ چھیڑ دیا گیا۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے اس پر پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ براہِ راست شہریت دینے سے صوبوں کے درمیان بہت سے مسائل جنم لیں گے۔ ابھی تک ہمارے کئی “جغادری محکمے” جن میں نادرا، محکمۂِ شماریات اور الیکشن کمیشن وغیرہ شامل ہیں پاکستان کی سو فیصد آبادی کی رجسٹریشن نہیں کر پائے ہیں۔ اوور سِیز پاکستانی، ووٹ سمیت ابھی کئی سہولتوں سے محروم ہیں، ایسے میں پچاس لاکھ غیر ملکیوں کی شناخت اور سماجی طور پر پاکستان میں ضم کرنے کی سوچ کچھ عجیب سی لگتی ہے۔ اس کڑے وقت میں یہ بے وقت کی راگنی ہے جو بجا دی گئی ہے۔ اس ضمن میں راقم پہلے ہی پاکستان مین بسنے والے بچوں کے لیے گرین کارڈ (عارضی رہائشی سرٹیفیکیٹ) کی بات کر چکا ہے۔
دو باتیں حکم رانوں اور ان کے مشیروں کو بغور سمجھ لینی چاہییں: پہلی یہ کہ آپ کو پارکنسن کے قانونِ غیر اہم Parkinson’s Law of Triviality سے باہر نکلنا ہوگا۔
اس وقت تمام غیر اہم کام ایک ساتھ اٹھانے کی کوئی توجیح و وجہ سامنے نہیں ہے۔ دوسرے آپ کے پاس یہ وقت، اگر واقعی قیمتی ہے (جیسا کہ اقوام متحدہ کے دورے کے انکار سے ظاہر ہوتا ہے) تو خدا را پارلیمان کو مضبوط کریں۔ حساس ملکی علاقائی، معاشی اور دیگر معاملات کو اداروں کے سامنے لے جانے کی بجائے اسمبلی میں لے کر جائیں۔ اسمبلی کے اندر اِن کیمرہ میٹنگز ہو سکتی ہیں۔ یہ آمریت جیسے یک طرفہ اعلانات اور اقدامات نہ صرف آپ کی مقبولیت پر اثر انداز ہوں گے بَل کہ اس کے منفی نتائج پاکستان کی قومی و ریاستی سلامتی کے لیے ممکنہ طور پر خطرہ بن جائیں گے۔ راقم یہاں مائیکرو لیول پر کیے جانے اور واپس لیے جانے والے اقدامات کی طرف نہیں جا رہا کہ وقت کا ضیاع ہو گا۔
یہ بات اب حکم رانوں اور پاکستان کے اداروں کو بھی سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہم اکیسویں صدی کی تیسری دھائی میں داخل ہونے والے ہیں۔ ہمیں اب خِرد و دانش کا دامن پکڑنا ہو گا۔ اپنے اوپر (جائز یا ناجائز، یہ الگ بحث ہے) لگے ماضی کے دہشت گردی جیسے داغوں کو دھونا ہو گا۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے ہولناک نتائج کو بھگت کر بے حد قومی، عسکری اور دیگر قربانیاں دے چکے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے مربوط پالیسیوں کے واضح خُطُوط مرتب کرنے ہوں گے۔ اپنے سماجی سٹرکچر کو تحمل، عدم تشدد، عدم انتہا پسندی کی تہذیب میں بدلنے اور منقسم مذہبی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے سماجی نوعیت کے اہم اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ یہ ہیں وہ بنیادی فیصلے ہیں، جو ہماری مستقبل کی سمت کو طے کریں گے اور یہ مباحث پارلیمان میں اوپن ہونی چاہییں، نا کہ انفرادی یا ذاتی سوچ کے تحت حتمی فیصلے۔
ہم جمہوریت کی آڑ میں اس انفرادی حکم رانی کی سوچ کے بھیانک نتائج کی قیمت پہلے ہی بہت ادا کر چکے ہیں۔ اب اس قوم میں سَکت نہیں کہ مزید ہولناکیوں کو بر داشت کریں۔