مسئلۂِ کشمیر، خطاب اور نتائج
از، معصوم رضوی
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وزیر اعظم کا اقوام متحدہ سے خطاب جامع، پُر اثر اور فکر انگیز رہا، یہ کسی وزیر اعظم کا نہیں ایک درد مند مسلمان کا خطاب تھا جو دنیا کو سکے کا دوسرا رخ دکھا رہا تھا۔ اسلاموفوبیا، مغرب اور مشرق میں مذھب کی منزلت کا فرق، اسلام پر دہشت گردی کا لیبل اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا۔
بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ کا کردار، انتہا پسندانہ سوچ، غیر ہندوؤں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔ عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بھی دنیا پر عیاں کی، یہ بھی واضح کیا کہ جب بھی کرفیو اٹھے گا تو خون کی ندیاں بہنے کا خدشہ ہے۔
دنیا سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ تجارت کو انسانیت پر فوقیت نہ دیں، اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو ہتھیار ڈالے نہیں بل کہ اٹھائے جائیں گے، نوبت ایٹمی جنگ تک جا سکتی ہے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایک پُر اثر اور مدبرانہ خطاب، پاکستانیوں کے دل کی آواز اور ٹھوس حقائق پر مبنی، مجھے کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے مؤقف کی بھر پُور ترجمانی کی اور کشمیر کا مقدمہ دو ٹوک طور پر پیش کیا۔
ہم ایک جذباتی اور جوشیلی قوم ہیں، وزیر اعظم کے خطاب پر تعریف و توصیف تو دوسری جانب تنقید و تنقیص کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر ایک لمحہ بھی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ ہر بار کچھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے، اسی طرح جوشیلے خطابات، پُر جوش پذیرائی مگر نتائج کے اعتبار سے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا ہر سر براہ مسئلہ کشمیر سے مخلص رہا خواہ جمہوری ہو یا آمر، بھلا بے نظیر بھٹو کا جنرل اسمبلی سے خطاب کون بھول سکتا ہے جب ہال میں بیٹھے بھارتی وفد میں ہل چل مچ گئی تھی۔ نواز شریف کا خطاب بھی شان دار تھا، جنرل ضیاالحق دھیمے لہجے میں نہایت پر اثر تقریر کے بعد اسلامی دنیا کا مرکزِ نگاہ بن گئے تھے۔
پرویز مشرف کی آگرہ پریس کانفرنس بھلا کون بھلا سکتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی بہ حثیت وزیرِ خارجہ تقریر تو آج بھی اقوام متحدہ کی بہترین تقاریر میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ تمام خطابات نہایت مدلل اور پر اثر تھے مگر نتیجہ کیا نکلا؟
اقوام متحدہ سے کیوبا کے فیدل کاسترو کا جوشیلا خطاب کون بھول سکتا ہے جنہوں نے دنیا کے سب سے بڑے ایوان میں امریکہ کے پرخچے اڑا دیے تھے، وینیزیلا کے ہیوگو شاویز کا طویل خطاب بھی ریکارڈ کا حصہ ہے مگر وینیزیلا کو کیا ملا؟ لیبیا کے جنرل معمر قذافی نے اقوام متحدہ کے در و دیوار ہلا ڈالے تھے مگر کیا لیبیا اور وہ خود تباہی سے بچ پائے۔
فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو مدلل خطاب بھی دنیا کو یاد ہے مگر فلسطین کے ہاتھ کیا آیا۔ دنیا بے شمار عالمی رہنماؤں کے نا قابلِ فراموش خطابات دیکھ اور سن چکی ہے مگر نتائج خطابات سے نہیں ٹھوس اقدامات اور مؤثر حکمت عملی سے آیا کرتے ہیں۔
یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی ہے، یا کم از کم مخالفت پر تیار نہیں۔ جنرل اسمبلی اجلاس سے ہفتہ بھر پہلے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اجلاس تھا۔ اس اجلاس میں پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد پیش کرنی تھی۔
قرارداد پیش کرنے کے لیے کم از کم 16 ارکان کی حمایت در کار تھی جب کہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی خطاب میں انکشاف کر چکے تھے کہ 58 ارکان ان کے ساتھ ہیں۔ خیر جناب نتیجہ یہ نکلا کہ ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہونے کے باعث پاکستان یہ اہم ترین قرارداد پیش کرنے میں نا کام رہا۔ افسوس کی بات ہے کہ جنہیں ہم حلیف قرار دیتے ہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تک بھارت کی مخالفت میں ہمارا ساتھ دینے پر تیار نہیں ہیں۔
وہ وقت گزر گیا جب پاکستان اسلامی دنیا کا دماغ تصور کیا جاتا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی بَہ دولت پاکستان کو یہ اعزاز ملا تھا مگر اس کے بعد کی قیادت کے پاس نہ فکری صلاحیت تھی نہ سیاسی بصیرت۔ پھر افغان جنگ نے دنیا میں پاکستان کے تشخص کو ایسا مجروح کیا ہے کہ کوئی اعتبار پر تیار نہیں۔ سو ترکی اور ملائیشیا کے سوا کوئی دوسرا ملک بے گناہ کشمیری مسلمانوں کے لیے بھارت کے خلاف آواز اٹھانے پر تیار نہیں ہے۔
پہلےبھی عرض کر چکا ہوں کہ ملکوں میں دوستی کی بنیاد صرف اور صرف مفادات ہوتے ہیں۔ بھارت ایک مضبوط معشیت ہے، ایک ارب بیس کروڑ باشندوں کی بڑی مارکیٹ، مفادات کو چھوڑ کر بھلا کون مظلوم مسلمانوں کے لیے کھڑا ہو گا۔ جب برادر ممالک تیار نہیں تو پھر امریکہ اور یورپ سے شکوہ کرنا بعید از عقل ہے۔
امریکہ میں 40 لاکھ بھارتی امریکن موجود ہیں جو پوری طرح مقامی سیاست میں متحرک ہیں، جب کہ ایسے پاکستانیوں کے تعداد صرف 6 لاکھ ہے۔ وہ بھی امریکہ کی نہیں بَل کہ پاکستان کی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں۔
انتخابات سے چودہ ماہ پہلے ڈیموکریٹ ہوں، یا ریپلکن کیوں بھارتی ووٹرز کو نا راض کرے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی شہرت یافتہ بڑی بڑی امریکی کمپنیوں کی قیادت بھارتی شہریوں کے ہاتھ ہے۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ بھارت نے پورے بیس سال سفارتی محاذ پر مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف کام کیا ہے۔
مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ اچانک نہیں کیا۔ دو بارہ انتخابات جیت کر پوری تیاری اور منظم منصوبہ بندی کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر کارِ روائی سے پہلے بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے درجنوں ممالک کے دورے کیے، عالمی رہنماؤں کو تجارت و سفارت کے ذریعے ہم نوا بنایا۔
سو اس ہوم ورک کا نتیجہ ہے کہ کوئی بھارت کے خلاف جانے پر تیار نہیں ہے۔ پاکستان کو امتِ مسلمہ کے درد میں بے حال ہونے سے پہلے یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہمارے ساتھ کون کون کھڑا ہے۔
اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں کہ قیادت فوجی ہو یا سیاسی، ہر پاکستانی حکم راں مسئلہ کشمیر سے مخلص رہا۔ دوٹوک مؤقف، شان دار تقاریر، کوئی سمجھوتہ نہیں، مگر سفارتی محاذ پر کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ بن سکی۔
بھارت نے بیس سال سفارتی محاذ پر ہر ہر جگہ پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ ہم اس کا توڑ کرنے میں بھی نا کام رہے۔ اسے خارجہ پالیسی کی نا کامی نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے، پاکستان دنیا کے سامنے اپنا بیانیہ مناسب طور پر نہ رکھ سکا۔ نہ ہی سفارتی میدان میں بھارتی بیانیے کو مؤثر جواب دے سکا۔
دنیا ہمارے سچ پر بھارتی جھوٹ کو کیوں ترجیح دے رہی ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارا سچ خود ساختہ ہے اور دنیا اعتبار کرنے پر تیار نہیں؟
ایک بار پھر عرض کروں کہ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کا مقدمہ بھر پُور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا مگر اس پر ڈھول بجانے کے بہ جائے ہمیں حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی مرتب کرنی ہو گی۔
صرف عالمی سربراہان کو نہیں، بَل کہ، رائے عامہ تک اپنی بات پہنچانی ہو گی۔
وقت ابھی بھی نہیں نکلا مگر حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ سچ تلخ ہوتا ہے، حقیقت پسندی پر غداری کے فتوے صادر کرنے کے بہ جائے حکومت، حزب اختلاف، اداروں اور عوام کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ غلطیوں کو صرف اعتراف کے بعد ہی سدھارا جا سکتا ہے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کالم ختم کرتا ہوں اس سے پہلے کہ میرے خلاف بھی غداری کا کوئی فتویٰ آ جائے۔
مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حکومت، اپوزیشن، ادارے، ہم اور آپ سب ریاست کے دَم سے ہیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے خطاب پر ڈھول پیٹیں یا ٹھوس اقدامات پر توجہ دیں، خطاب کو نقطۂِ آغاز جانیے، یا انجام …