(سیّد کاشف رضا)
کبھی کبھی میں بھی سوچتا ہوں
جو سو رہے ہیں انھیں جگانے سے کیا ملے گا
بہا رہے ہیں جو خونِ ناحق
یونہی نشانے پہ ان کے آنے سے کیا ملے گا
جو بچ رہے تو
کہیں سے دشنام کی سیاہی
کہیں سے طعنے کا تازیانہ
لکھو فقط عشق کا فسانہ
کسی مہکتے ہوئے تبسم کا ذکر چھیڑو
کسی کے ہونٹوں کو چومتے حرفِ محرمانہ کی بات لکھو
کبھی کبھی دردِ ہجر سے جو ستارے آنکھوں سے جھانکتے ہیں
انھیں بھی نظموں میں راستہ دو
کبھی غمِ روزگار لکھنا ہو تو بھی لکھو
بس اس کے اسباب مت بتانا
مگر میں پھر یہ بھی سوچتا ہوں
یہ سنگِ دشنام اور یہ طعنے
یہ شست باندھے ہوئے کرائے کے نودمیدے
اجل رسیدے
فقط مرے ہی لیے نہیں ہیں
ذرا جو تاریخ کو کھنگالو
ہر ایک غازی انھی سے لڑتا ہوا ملے گا
ہر اک زمانے نے اپنے اپنے زمانیوں سے
گواہ مانگے
وہ جن نے جھوٹی گواہیاں دیں
وہ وقت کے کوڑے دان کا رزق ہو گئے ہیں
ابھی دل و جاں کے واسطے ہے ضرر ،تو کیا ہے
مجھے یہ تاریخ اپنے سچوں کے ساتھ لکھے اگر، تو کیا ہے
ذرا جو تاریخ کو کھنگالو
گواہ سچے ہی رہ گئے ہیں
یہ فیض صاحب بھی کہہ گئے ہیں
’’الم نصیبوں ، جگر فگاروں کی صبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے‘‘
سحر کا روشن افق یہیں ہے
جہاں پہ دینی ہے ہم نے اس عصر کی گواہی
تو آؤ ہم بھی یہیں کھڑے ہیں
یہیں کھڑے ہیں جہاں پہ تہذیب اور تمدّن کے
سارے غازی کھڑے ملے تھے
تمھیں بھی اب میں یہیں ملوں گا
جو لکھ رہا ہوں وہی لکھوں گا
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.