بروشسکی نظم کے مینار، بشارت شفیع ہم سے بچھڑ گئے
علی احمد جان
منفرد زبان (بروشسکی) کے منفرد شاعر بشارت شفیع گزشتہ ماہ سکھر سے کراچی جاتے ہوئے ایک کار حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقہ یاسین ہندور سے تھا۔ وہ جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل تھے۔ زمانہ طالب علمی میں قوم پرست سیاست سے بھی وابستہ رہے اور ایک شعلہ بیاں مقرر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جیمس گرانڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ ڈھاکہ ماسٹرز آف پبلک ہیلتھ کی ڈگری حاصل کرچکے تھے۔
بشارت شعیع (مرحوم) کا نمایاں کام بروشسکی زبان و ادب کے حوالے سے ہے۔ میں اپنے پہلے مضمون “بروشسکی۔۔۔ تنہا اور منفرد زبان: یاسین میں بروشسکی شاعری کا ارتقائی دور” میں بروشسکی زبان اور تاریخ کے حوالے سے لکھ چکا ہوں اور اسی مضمون میں مرحوم کا بھی سرسری ذکر کر چکا تھا۔ آج میں اس مضمون میں مرحوم کی ادبی خدمات کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں۔
یہ بروشسکی زبان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو بشارت شفیع مل گئے۔ میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وادی یاسین میں بولی جانے والی بروشسکی زبان کی نظم کی انگلی پکڑ کر چلنا انھوں نے پہ سِکھایا۔
کسی معاشرے میں سماجی اور تہذیبی تبدیلی تخلیقِ اظہار میں تبدیلی سے عبارت ہے۔ فرد کا انفرادی شعور، سماج کے اجتماعی شعور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مگر اس تبدیلی کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے تخلیق کار کا طاقت ور علمی اور دانش ورانہ پسِ منظر سے ہونے کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے عوامل کے ادراک اور اس کے مابعد اثرپذیری کو سمجھنے والی بالغ نظری کا حامل ہونا ضروری ہے۔
2010 سے قبل یاسین میں بولی جانے والی بروشسکی زبان میں شاعری کے نام پر تُک بندی ہوتی تھی۔ جس میں رتی برابر بھی شعریت نہیں ہوتی تھی۔ اور اکثر غزلیں لب و رخسار کے گرد ہی گھومتی تھی۔ اس وجہ سے عوام الناس میں کبھی بھی کوئی شاعر مقبولیت حاصل نہیں کر پایا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی اس ددور میں لکھے گئے گیت، گانوں اور غزلوں کو کوئی بھی فرد اپنے خاندان خصوصا خواتین اور بچوں کو ساتھ بٹھا کر سننا پسند نہیں کرتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ لوگ ان شُعَراء کو بھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے تھے۔
اس کی کئی وجوہات تھیں جس کے بارے میں کچھ باتیں پہلے مضموں میں بھی درج تھیں۔ اول یہ کہ خصوصاً یاسین میں غزل گو یا شاعری کو لفنگا، لوفراور ناکام شخص تصور کیا جاتا ہے اور لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ دوم کچھ زندگی سے بیزار لوگ جو عملی زندگی میں ناکام ہیں، آوارہ گردی کرتے ہیں، ردیف قافیہ ملا کر البم تیار کرتے ہیں اور “شاعر” بن جاتے ہیں ۔ یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کہ زیادہ تر لوگ گلو کار کو ہی شاعر سمجھتے ہیں۔
سوم پڑھے لکھے حضرات اس میدان میں آنے سے کتراتے تھے کہ لو گ انھیں بھی لفنگا، لوفر سمجھیں گے مگر پچھلے چند برسوں سے خوش قسمتی سے پڑھے لکھے نوجوانوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھنا شروع کیا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں سماجی، سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں اور مسائل کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ اس کی مثال بروشکی غزل کے ماضی میں کہیں نظرنہیں آتی۔
نوجوانوں اور پڑھے لکھے افراد کو اس طرف لانے میں بنیادی کردار مرحوم بشارت شفیع نے ادا کیا۔ سال 2012 میں ان کا پہلا البم “ہیشے تسقن” منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد کئی پڑھے لکھے افراد نے طبع آزمائی کی اور خوب لکھا۔ بشارت شفیع نے پہلی مرتبہ معاشرتی مسائل کو اپنی غزلوں کا موضوع بنایا۔ وہ لکھتے ہیں
غونڈلے جی نِیانے چھیونی میما
گِری دُو تھاریس نیتے چھیو نی میما
سے گا می گیچامان بے اِسقایامان
چھینے فالو نوکووا دا دِیا کا
(فاختے کو مار گرا کر ہم خوش ہوتے ہیں، ہرن کو اس کے چھوٹے بچوں سے جدا کر کے خوشیاں مناتے ہیں۔ حتیٰ کہ چڑیا کی ننھی جان کو بھی نہیں بخشتے۔ )
ان کے بڑے بھائی اعجاز کے مطابق مرحوم نے پہلا شعر 1997جنوری میں لکھا تھااور اس وقت وہ کلاس ششم کے طالب علم تھے۔ ان کا پہلا بروشسکی شعر
خورکے تے تپ جوآ ان گواننے بے
تیس دی نے ایتا ٍگوچھوۓ کیتا گوچھوے
(ترجمہ:اے میرے محبوب تم اپنے رویے میں بےجا لچک کوکم کرلو۔ گھاس کے پتے کے مانند نہ بنو۔۔۔ کہ ہوا کے دوش پہ ٹہلتے جاؤ، اپنی مرضی کے بغیر)
چند ماہ قبل ان کا پانچواں البم منظرعام پر آیا تھا اور عوام الناس میں مقبول ہوگیا تھا۔ ان کی شاعری کی کئی خصوصیات ہیں۔ پہلی اور بنیادی خصوصیت زبان کی احیا اور بروسشکی ضرب المثال کا خوبصورت استعمال ہے۔ بہت سارے الفاظ جو نوجوان بھول گئے تھے۔ ان کی شاعری کی بدولت پھر زندہ ہوگئے اور آج کل عام بول چال میں ایک مرتبہ پھر استعمال ہونے لگے ہیں۔
ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے نوجوان لکھاری نوید حسین لکھتے ہیں
مشہور و معروف شاعرہ پروین شاکر اپنی کتاب خوشبو میں یوں رقم طراز ہیں ’’وجود کومحبت کا وجدان ملا تو شاعری نے جنم لیا۔۔اس کا آہنگ وہی ہے جو موسیقی کا ہے کہ جب تک سارے سُر سچے نہ لگے، گلے میں نور نہیں اُترتا!۔۔۔دل کے سب زخم لو نہ دیں تو حرف میں روشنی نہیں آتی! وجود کے سُر تیور بھی ہوتے ہیں اور کومل بھی۔۔۔ تیور سُر عذاب لاتے ہیں اور کومل خواب!۔۔۔کبھی چیخ۔۔۔کبھی کراہ۔۔۔کبھی سسکی۔۔۔اور کبھی گفتگو، کبھی سر گوشی اور کبھی خود کلامی! ‘‘ بروشسکی کے نوجوان شاعر بشارت شفیع بھی گزشتہ چندسالوں سے کبھی چیختے ہیں، کراہتے ہیں اور سسکی، سرگوشی اور خود کلامی کے ساتھ ساتھ باآواز بلند اپنے احساسات، محسوسات، خیالات اور جذبات بیان کرتے آئے ہیں۔ اُن کی شاعری میں ایک طرف عشقِ بُتاں اور یادِ رفتگاں کا عنصر نمایاں ہے تو دوسری طرف اپنے لوگوں سے اُنسیت اور اپنی جائے پیدائش سے محبت کابیاں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہے۔
لہلہاتے کھیت، بل کھاتی ندیاں، شور مچاتے آبشار، برفیلے چمکتے پہاڑ، گلے ملتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے لوگوں اور ہنستے کھیلتے بچوں کے ذکر سے وہ اپنی شاعری میں ’’واہ‘‘ کی کیفیت پیدا کرتے ہیں جبکہ معاشرتی ناہمواریوں، آپس کی چپقلشوں ، کمزور اور ناداروں کی کہانیوں اور معدوم ہوہوتے رُسوم و رواج کے بیان سے وہ ’’آہ‘‘ کی کیفیت کی عکاسی بھی اکثر و بیشتر کرتے ہیں۔”
انھوں نے رومانوی غزلیں بھی اتنی ہی خوبصورتی سے لکھی ہیں اور ایک نیا رنگ دیا ہے۔ ایک طرف انھوں نے معاشرتی مسائل کو جوش ملیح آبادی کی طرح پیش کیا تو دوسری طرف ناصر کاظمی کی طرح رومانوی شاعری بھی پروشسکی ادب کو دیا۔ مثلا وہ لکھتے ہیں
باشا چوم الچینا متھن گومانا
ہیراشو الچیمو ملتن گومانا
ہیکن ہالانز ماکوچی غاناکا اُن
جا آس چاقار مانی التن گومانا
ماں کی عظمت کو اپنے ایک کلام میں اس طرح بیان کرتے ہیں
جا بو اپام جہ گو گورین دو نانی
داووسا گونز چوم گونز دارین دو نانی
گو نت اوکھات دولومے ایتن سلام
جہ بوتی باش اپم یارین دو نانی
اُن ہین شفیع گندی چی موقوم اپا
اُن تو بتھانے با اورن دو نانی
محقیقن کا کہنا ہے کہ بروشسکی زبان اس وقت خطرے سے دوچار زبانوں کی فہرست میں شامل ہے۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ بروشسکی نثر کو بھی بشارت شفیع اور علامہ نصیر جیسا ادیب مل گیا تو بہت جلد اس فہرست سے خارج ہوگی۔