زہریلی محبت
از، منزہ احتشام گوندل
بعض اوقات ہم کسی ایسے فرد کی چاہت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی زندگی میں ہماری حیثیت ایک resort کی سی ہوتی ہے۔اس کی ترجیحات میں ہم کہیں بہت نیچے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کار و بار، خاندانی تقریبات،گھر، بیوی، بچے، دوست احباب، مجرے پارٹیاں وغیرہ کرچکتا ہے اور جب کسی میٹنگ کی خاطر سفر کے لیے گاڑی نکالتا ہے تو اسے اچانک خیال آ تا ہے کہ اوہ، اچھا کیوں نہ فلاں سے اب بات کرلی جائے۔
اور ہم اسی میں خوش ہیں کہ چلیں صاحب اور کچھ نہیں تو تین چار دن بعد ہمیں یاد کرلیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسے تعلق کو بحال رہنا چاہیے جہاں ہم اپنا خون جگر بھی جلا رہے ہوں اور دوسرا بندہ اس کڑی مشقت کو معمولی سی حیثیت بھی نہ دے رہا ہو؟
ایسا تعلق زہریلا تعلق کہلاتا ہے۔ جو محبت کرنے والے فرد کے نہ صرف وجود بلکہ اس کی نفسیات میں بھی زہر بھر رہا ہوتا ہے۔یہ زہر جہاں انسان کے وجود پہ اثر انداز ہوتا ہے وہیں اس کا اعتبار اور اعتماد اچھے آ درشوں سے اٹھ جاتا ہے۔
ہم انسان اپنی زندگی میں بہت سی مشقت ایک با وقار اور بامعنی زندگی جینے کے لیے کرتے ہیں۔زندگی کا ماحصل کچھ لوگوں کے لیے فقط دولت اور وسائل کا حصول ہے۔لیکن اس کے ساتھ ایک باوقار زندگی جینے کی خواہش بھی جڑی ہوئی ہے۔زندگی کی خوشیوں کا ماحصل اگر محض دولت ہے تو یہ دولت کمانی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔وہ جسم فروشی کرکے،خواہ وہ کسی بھی سطح کی ہو،زہر فروخت کرکے،انسان قتل کرکے،بھی کمائی جاسکتی ہے۔اور انسان یہ سب اس وقت کرتا ہے جب اس کا محبت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور دنیا اس کے لیے ایسے ہوجاتی ہے جیسے وہ مرا ہوا ہاتھی ہے اور انسان ایک بھوکا کتا ۔
ہمارے ہر عمل کا ایک ردعمل ہے۔جو ہماری اچھی کمائی کو تعمیری جبکہ غلیظ کمائی کو تخریب کی طرف خودبخود لے جاتا ہے۔بعض اوقات ہم اپنے اعمال کی وجہ سے کسی ایسے فرد کی اندھی چاہت میں مبتلا کردیے جاتے ہیں جو ہمیں برباد کرتا ہے۔اس ضمن میں مجھے اپنے ایک عزیز کی زبانی ایک واقعہ یاد آ یا ۔وہ بتاتے ہیں کہ
ایک مشہور نیورولوجسٹ نے جو کہ عالمی معیار کے دماغی سرجن ہیں “دوبئی” میں ایک بار میں ناچتی پاکستانی بار گرل سے شادی کرلی۔ڈاکٹر صاحب نے خاتون کو کروڑوں کا گھر،گاڑی اور بہت کچھ لے دیا۔ساری آ سائشیں اور سارے وسائل دیے مگر ساتھ ایک شرط لگادی کہ وہ ناچنے والا کام چھوڑ دے۔لڑکی نے ناچنا چھوڑ دیا۔کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب کو پتا چلا کہ خاتون دوبارہ سے اپنے سلسلے بحال کر چکی ہے اور نجی محفلوں میں ناچتی ہے۔ڈاکٹر صاحب سخت رنجیدہ ہوئے۔ خاتون کو ایک طلاق دی اور اپنا دیا مال واپس لینے کے جتن شروع کردیے۔
اس دوران خاتون نے پھر منت سماج کی اور اپنا مقام بحال کرالیا اور ساری آ سائشیں بھی واپس لے لیں۔اور کچھ عرصے بھی پھر وہی شروع کردیا جس سے منع کیا گیا تھا۔سوال صرف یہ ہے کہ کیا یہ ڈاکٹر صاحب کے اعمال کا ردعمل تھا کہ ایک ایسی عورت کی چاہت میں مبتلا کردیے گئے جو ان کے مال و دولت،محبت ،اعتماد اور ہر قابل احترام شئے کو برباد کرتی رہے؟
وہ اتنی رقم مطلقاً انسانوں کی فلاح کے لیے خرچ کرسکتے تھے؟
محبت ایک بہت بڑا آ فاقی جذبہ ہے۔لیکن اس جذبے کا درست استعمال بہت ضروری ہے اور اس کا درست استعمال یہ ہے کہ یہ درست آ دمی کے ساتھ کی جائے۔جب آ پ کو لگے کہ کوئی شخص آ پ کی خوبیوں اور اچھائیوں کو ویلیو نہیں کررہا تو وہ غلط آ دمی ہے۔
جس آ دمی کو فقط خوبصورت چہرے اور جسم کے ساتھ محبت ہے وہ بھی غلط ہے۔
درست آ دمی وہ ہے جو آ پ کی شخصیت کی درست تعبیر کرے اور اسے ویلیو کرے۔
وہ آ پ کی عزت آ پ کی خوبیوں کی بنیاد پہ کرے۔اور محبت کا جواب محبت سے دے۔وہ آ پ کے لیے وقت مخصوص کرے۔ آ پ کے ساتھ اپنے فالتو وقت میں رابطہ نہ کرے۔
اگر ایسا شخص آ پ کی زندگی میں ہے تو آ پ کی زندگی تعمیری ہے۔ اور اگر نہیں ہے تو جان لیں کہ آ پ سراب کے پیچھے ہیں اور اس سراب سے جتنا جلدی نکل آ ئیں اتنا بہتر ہے۔