گَردا لا دے بھائی، اپنی جنت آپ بنانی ہے
از، نصیر احمد
کیا تبدیلی آئی ہے؟ تم کہتے ہو گھومنے پھرنے چلیں، کیوں تکلیف سیر باغ دیتے ہو، یہاں تو بڑے بڑے رجائیت پسندوں کی نہ تو امیدِ فردا رہی اور نہ شوق شگفتن برقرار رہا۔ کہیں سے گردا (چرس) لے آؤ، یہیں کَھٹیا پہ ہی گھومنے لگیں گے۔ تم نے تو ایسے نشے کیے ہی نہیں اس لیے تمھیں کیا خبر، دماغ میں وہ فردوس سجتی ہے کہ تلخ سے تلخ حقیقت بھی دماغ اس فردوس سے نہیں ہٹا سکتی۔ اور وہ تو تمھیں یاد ہی ہو گا، جو گھوم رہا ہے، جھوم رہا ہے’ کا غوغا کرتے چکرا کے گر گیا تھا۔ قسم سے سر جھکا کے آدمی اپنی خیالی جنت میں ایسے گم ہوتا ہے کہ پیٹھ پر جوتے بھی پڑتے رہیں اس خیالی جنت کی کیف آگیں لذتوں سے دھیان ہی نہیں ہٹتا۔
کہیں سے گردا لے آؤ، ایک ذرا گردن جھکائیں گے تصویر یار دیکھ لیں گے۔ تھوڑا سا جھومیں گے تو کروڑوں مکانات بنانے کے لیے اینٹیں دوڑتی ہوئی جائے تعمیر پر پہنچ جائیں گی۔ تم نے یہ نشے کیے نہیں ورنہ دو چار کشوں میں ہی ذہن ایک گارا سا تو بن ہی جاتا ہے۔ اور ہمارے ذہن کے گارے کے جمال کے سِحَر میں البرج خلیفہ سے شیخانِ عظام پر پھیلائے پچھواڑا دکھاتے نوٹوں کے بَکسے لیے بندھے چلے آئیں گے۔
اور جنگل میں وہ مور ناچ ہو گا کہ شہری منصوبہ سازوں، مہندسوں، مزدوروں اور راج مستریوں کی مدد کے بغیر ہی کروڑوں مکانات جھومتے جھامتے، ٹھمکے لگاتے، ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور رستے میں نظر آنے والے ہر بیل کو چومتے چاٹتے کھڑے ہو جائیں گے۔ اب احمق اور بے وقوف کہتے ہو ناں، جب یہ چمتکار ہوں گے تو مارے خِفت کے ایک دوسرے کی بغلیں جھانکتے پائے جاؤ گے۔
اور اگر چکرا کر فرش پر گئے تو ایڑیاں رگڑیں گے، تیل کے چشمے ابل پڑیں گے اور عابدہ پروین اپنے کلام میں ترمیم کر لیں گی۔ جاں میں ماری اڈی، تاں مل پیا ہے تیل( جہاں میں ایڑی بجاتی ہوں، وہاں سے تیل نکلتا ہے)۔
میرے پاکستانیو، اب شور مچاتے ہو کہ اس نے لٹیا ہی ڈبو دی لیکن ایک وقت وہ آئے گا جب دجلہ و فرات کی ہر مچھلی اپنی پیٹھ پر سونے کی ایک لُٹیا لیے نمُو دار ہو گی اور تم سب کو کہے گی، اے صاحبانِ کرامات ، لو یہ سونے کی لٹیا لے لو مگر تم کہ اس وقت تک اتنے دیانت دار ہو چکے ہو گے سونے کی لٹیائیں لینے سے انکار کر دو گے اور با آوازِ بلند کہو گے، مچھلیو، ہمیں وہی لُٹیا چاہیے جو ماسی فضل بیگماں نے اپنے ہاتھوں سے آوے پر چڑھائی تھی، سونے کی لٹیا میں ماسی فضل بیگماں کے اُپلے تھپے ہاتھوں کی خوش بُو کہاں۔
اور قُدسی وطن سے تمھاری محبت کو سراہتے ہوئے کورس Chorus میں گیت گائیں گے اور خالہ خوش رُو فضل بیگماں قدسیوں کو طعنے دیں گی کہ وہ پتر جو کھاٹوں سے نہیں اٹھتے تھے ان کی انھی خوبیوں کی وجہ سے ہی تم کو میسر نہیں ہے انساں ہونا۔
یا نفس کو انجمن آرزو میں کھینچتے ہوئے کہیں سے جیون بوٹی منگوا دے اور میں پیر فرید کی برکت سے دن رات نشے میں گُم ایسی کرامات کروں کہ بجلی، پٹرول، گیس، اشیائے خور و نوش، ٹیلی فون، ادویات اور تعلیم و صحت سمیت دیگر سہولیات کی قیمتیں ایسے گریں کہ اٹھائے نہ اٹھیں۔
خالہ خوش رُو فضل بیگماں کہ افیون کی مدد سے اپنی جنت بسائے رکھتی تھیں۔ ایک دن اسی نشے کے عالم میں کسی راہ گزار پر لیٹی ہوئی بہشت پیمائی کر رہی تھیں کہ کسی نا دان کو ترس آ گیا کہ عمر رسیدہ ہیں، شاید طبیعت نا ساز ہے، اس کم بخت نے واردات قلبی و ذہنی کا تخمینہ لگائے بغیر مرحومہ کو اٹھانے کی سعی کی تو خالہ خوش رُو فضل بیگماں جھنجھلا اٹھیں’ کتے کے پِلّے کیوں نشے خراب کر رہا ہے، اٹھانا ہے تو اپنی ماں کو اٹھا، اپنی بہن کو اٹھا مگر ہمیں یہیں پڑا رہنے دے کہ خوب مزے آ رہے ہیں’۔ بس ایسے ہی قیمتیں لیٹ جائیں گی اور ظالم سرمایہ دار ان کی منت سماجت کرتے رہیں گے مگر وہ گری ہوئی قیمتیں نہ اٹھیں گی۔
اور اگر اٹھ کر بیٹھ گئیں، تب بھی حل تو موجود ہیں۔ وہ پیر دانا تو یاد ہوں گے جنھیں افیون کھانے کے الزام میں اڈیالہ جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ وہ جیل میں پہنچے تو ان کی بزرگی کے احترام میں افیون ان کے لیے فراواں کر دی گئی اور وہ ہیں کہ ہر وقت لیٹے ہیں مزید افیون کے تصور میں۔
اب جیل والے انھیں چھوڑنے کی کوششیں کرتے ہیں مگر وہ جیل نہیں چھوڑتے۔ اس لڑکی کے باپو جی کے ساتھ ایسے ہی ہوا تھا کہ زحمت اس کے لیے رحمت بن گئی تھی۔ اس لڑکی کے باپو جی کو آپریشن کے سمے نشے میں سلانے کے لیے کچھ خمار انگیز دوا دی گئی تھی مگر ان کے نشے ٹوٹ رہے تھے وہ بے ہوش ہونے کے بجائے ترو تازہ ہو گئے اور لگے نرسوں کے نینوں سے نین ملانے۔
خیر ان پیر دانا کو جیل تو چھوڑنی پڑی مگر جب بھی جیل کی اس جنت کو یاد کرتے تو کہتے’ اڈیالہ جیل نہیں جنت ہے’۔ پتا نہیں بھولے کو کیا ہوا ہے کہ جیل میں علیل کراہتا رہتا ہے۔ شاید وہ بھی تمھاری طرح نشے نہیں کرتا۔ خیر تمھاری طرح تو نہیں۔ ارے معاف کر دو، ویسے ہی ہنسی کر رہے ہیں، تم کہاں نشے کرتے ہو۔
ویسے آج کل ہو تو اسی پیر دانا کی کہانی مانند رہا ہے۔ ہر خرابی خوشی کا باعث بن جاتی ہے۔ جب کہتے ہیں خزانہ خالی ہو رہا ہے تو جواب آتا ہے خلا ہی تو امکانات کی دنیا ہے۔ کوئی ملک اس وقت عظیم نہیں ہو پاتا جب تک خلا میں ایک دو راکٹ نہ بھیجے اور تم خلا کے امکانات کی بَہ جائے خلا کے شکوؤں میں گُم ہو، ایسے تو کبھی بھی ترقی نہ کر پاؤ۔
جب گِلہ کرتے ہیں قرضے بڑھ رہے ہیں واپس کیسے دیں گے تو بادہ بہ بادہ، خم بہ خم، صراحی بہ صراحی، دوش بہ دوش، دست بہ دست پیغام آتا ہے قرضے فزوں ہونا تو معیشت کی نشو و نُما کی اساس ہے۔ ہمارے قرضے ریاست ہائے متحدہ اور چین سے تو زیادہ نہیں ہیں۔
جب کہتے ہیں روپیہ گر رہا ہے، تو کرنسی کے صعود و عمود کے بارے میں ایسا پیچیدہ سا بھاشن دیتے ہیں کہ ماہرینِ معاشیات کی یہ حالت ہو جاتی ہے کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا۔ اور وہ ناز سے کہتے ہیں گرے ساغر، ہنسے ساقی، لنڈھے شیشہ، بہے دریا۔
اب اس کی کچھ روک تھام تو ہو نہیں سکتی تو ہم ان نشوں میں شامل کیوں نہ ہو جائیں۔ تھوڑا سا گَردا لا دو، ہم بھی ایسی جنت بسا لیں گے جسے کوئی دلیل، کوئی ثبوت نہیں اجاڑ سکتا۔
پھر تم بھی تو ہر وقت ایپیکیورس، خیام، حافظ، بابر اور افادیت پسندوں جیسے مسروروں کا راگ الاپتے رہتے ہو۔ کیا ہوا جو ہمارے پاس فلسفہ نہیں، بادہ تو ہو گا ناں اور بادہ وہ جنت بساتا ہے جس کے مقابلے فلسفے کی پیچیدہ لفاظی اور متروک الفاظ کی گھڑی ہوئی جنت تو دو پَل نہیں ٹھہر سکتی۔ گردا لا دے بھائی، ہماری الجھن آسان کر، ہم بھی مینڈھے سے بنے ٹھمکے لگاتے رہیں گے اور سچائی پردہ نشین ہی رہے گی۔