سیاسی آرزو اور آرزو کی حقیقت کاری
از، نصیر احمد
خوشی ہو کہ غم، آزادی ہو یا غلامی، جنگ ہو یا امن، اگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی آرزو بن جائے تو اس بات کے امکانات ہوتے ہیں کہ لوگ اس آرزو کو حقیقت بنا لیں۔
بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر اشتراکیوں کی حکومت تک چین میں بہت جنگ و جدل ہوتی رہی۔ یہ کوئی نصف صدی بن جاتی ہے۔
اشتراکیوں کی حکومت سے توقع تھی کہ اب معاملات بہتر ہو جائیں گے اور کچھ سکھ چین میسر ہو گا۔ لیکن ادھر چئیرمین کاملِیّت پرست عِفریت بنے ہوئے تھے۔ انھوں نے چین کو عالمی جنگوں میں الجھا دیا اور اپنا اقتدار زندگی کے ہر گوشے تک پہنچانے کے لیے معاشرتی بھی برباد کر رہے تھے۔ بس ایک سَیہ کار شخصیت اور ایک انتہائی خطرناک نظریے کے امتزاج کی ایک انتہائی شکل بن گئی تھی۔ اس کے نتائج بیرونی جنگوں اندرونی خلفشار ،بڑے پیمانے پر ظلم و ستم اور ایک بہت بڑے پیمانے پر انسانی زندگی کے زیاں کی صورت میں رُو نما ہوئے تھے۔
ماؤ اپنا اقتدار زندگی کے ہر زاویے پر مسلط کرنے کے لیے طرح طرح کے کھیکھن اور ناٹک کرتے تھے۔ یہ بے ڈھنگے سے ناٹک فرد پر مکمل قبضے کی کوششوں کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ سادھو سَنتوں اور صوفیوں میں بھی ملتے ہیں، مدرسوں اور آشرموں میں بھی ملتے ہیں اور کارپوریٹ کلچر میں تو عُروج پر ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی، ہندتوا اور ما با تھا وغیرہ کے دھندے بھی ان ناٹک نوٹنکیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔
ماؤ، کامریڈ سٹالن اور لینن جیسے فن کاروں کے شاگرد تھے اور یہ کھیل بہت اعلیٰ کر لیتے تھے۔ یہ پانچ باتوں کی دشمنی کی آڑ میں لاکھوں کا شکار کر رہے ہیں تو کبھی تین باتوں کی دشمنی کی گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ کبھی سو پھول کِھلا رہے ہیں اور کبھی مہان چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ تو کبھی ثقافتی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔
ناجائز اقتدار کا یہی معاملہ ہوتا ہے۔ سفّاکی کے شکار لوگوں کے علَم بَردار بن کر سفّاکی سے اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ پھر خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انتقام کا شکار نہ بن جائیں تو اپنے ناجائز اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے سفاک ترین ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے رنگ بہ رنگے بہانے گھڑتے رہتے ہیں اور نت نئے شوشے تراشتے رہتے ہیں۔ اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ لوگوں کا کیا ہو گا؟ اپنے سایے سے خوف زدہ فرد کو دوستوں کی اتنی کہاں فکر رہ جاتی ہے۔
تو ماؤ کے شوشوں کے نتائج بڑے تباہ کُن ہوئے۔ اپنے آڈن (Auden) صاحب نے کہا بھی تو ہے کہ جب آمر اداس ہوتے ہیں تو شہر اُجڑتے ہیں۔ اور ماؤ کے شوشوں کے نتیجے میں جو بے چارے مارے گئے ان کی تعداد پر ہی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چالیس ملین تھے اور کوئی کہتا ستر مِلین تھے۔ اور جو زندہ رہے وہ بھی کچھ خاص زندہ نہیں تھے۔
عقل دشمنی اور ضمیر دشمنی میں وہ اپنے اساتذہ اور ہٹلر جیسی شخصیات کے ہم پلّہ تھے۔ اور بعض لوگوں کے خیال میں ان سے زیادہ انسانیت کے لیے ضرر دِہ تھے۔ بعض لوگ ان کی حمایت بھی کرتے ہیں کہ چین کو متحد کیا اور چین کی موجودہ ترقی کی بنیاد استوار کی۔ہمارے خیال میں کچھ بھی کہیں ان کی شخصیت اور پالیسیوں کے بگاڑ کے ایک بہت بڑے پیمانے پر اندوہ ناک نتائج ہوئے۔
مہان لمبی چھلانگ قحط انگیز ثابت ہوئی اور کوئی بیس ملین کے قریب لوگ بھوکے مر گئے۔ پارٹی میں اس کے خلاف رد عمل پیدا ہوا۔
ماؤ کا اقتدار تھوڑا کمزور ہوا تو ڈنگ شاؤ پنگ اور لیوشاؤچی نے معیشت اور معاشرہ سدھارنے کی کوشش کی۔
اس کے نتیجے میں لوگوں کو کچھ سکون ملا اور پارٹی میں سکھ چین کی اک آرزو پیدا ہوئی جس کی مسلسل شورش سے اکتائی عوام نے بھی حمایت کی، اور چینیوں کے مخصوص لطیف طریقے کے ذریعے ماؤ کے رستے سے ہٹنے کا سلسلہ اختیار کر لیا۔
ماؤ تو کامل طاقت سے کم پر راضی نہ ہوتے تھے لیکن پارٹی اور معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہی چاہتی تھی کہ بابا جی اب کَھٹیا پر مارکس مارکس کریں اور امن خراب نہ کریں۔
بابا جی طالب علموں کو بھڑکا کر ثقافتی انقلاب کے آئے اور پھر لاکھوں پر تشدد ہونے لگا، سرِ عام ان کی رُسوائی ہونے لگی، جیلوں میں بند ہونے اور جان سے جانے لگے۔
کمیونسٹ پارٹی میں مخالفین کا خاتمہ ہونے لگا۔ معیشت اور معاشرہ بہتر کرنے والے رہ نما اذیتیں سہنے لگے۔ مارشل پینگ ڈا ہوئے پر بے پناہی تشدد ہوا۔ ڈنگ نے بھی صعوبتیں سہیں۔ لیوشاؤ چی کو بھرے جلسے میں پیٹا گیا۔
لیکن پارٹی اور عوام میں ایک نارمل زندگی کی آرزو بن گئی تھی، اور اس آرزو کے سامنے ماؤ کی نوٹنکی کی پھر چل نہیں سکی۔
ماؤ کی وجہ سے تاخیر تو ہوئی، لیکن امن کی آشا پوری ہو گئی۔ ماؤ کے بعد ان کی ایکٹرس بیگم نے نوٹنکی جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن ڈنگ کی بہ حالی ہوئی اور چین ترقی کے ایک سفر پر رواں دواں ہو گیا جس میں لوگوں کے لیے جمہوری آزادیاں نہیں تھیں، لیکن ذاتی ترقی، شہری سہولتوں اور کاروباری آزادیوں کے لیے بہت گنجائش بنا دی گئی۔
ماؤ کے مسلط کردہ جہنم کے بعد چینی لوگوں کے لیے یہ تھوڑی بہت آزادیاں بھی نعمت بن گئیں۔ چینیوں نے اس نعمت کا بہت فائدہ اٹھایا اور آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہیں۔
لیکن پچھلے عشرے میں کاروبار اور کاملِیّت پرستی کے اتحاد کے نتیجے میں کاملِیّت پرستی کی واپسی ہونے لگی اور ماؤ کا بھوت بھی بہ حال ہونے لگا۔
اس سب کے مخالف سیاسی اور جمہوری آزادیوں کے لیے ایک محدود پیمانے پر بات چیت چل رہی ہے، اور یہ بات چیت کرنے والے بہت کچھ سہہ رہے ہیں لیکن یہ بات چیت عوامی آرزو ابھی نہیں بنی۔ اگر بن گئی تو انسانیت کی بہت بھلائی ہو گی۔ ماؤ کا بھوت ہے تو ڈنگ کا بھی بھوت ہے اور لگتا ہے کہ ڈنگ کے بہت سے سارے مقلّدِین ڈنگ کے ماڈل کو اپڈیٹ کر کے جمہوری کرنے کے آرزو مند ہیں۔
ابھی تو لیکن ماؤ کے اَپڈیٹِڈ بھوت سے ہی دنیا کا سامنا ہے۔