پاکستان میں سیاسی عمل کی حرکیات

writer's photo
ڈاکٹر سید جعفر احمد، صاحبِ مضمون

(ڈاکٹر سید جعفر احمد)

انسان کی زندگی کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں کہ اس کا کوئی بھروسا نہیں، ایک پل میں ہے اور اگلے ہی پل میں نہیں ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو شعر کے قالب میں ڈھال دیا تھا

زندگی غیر سے مانگا ہوا زیور تو نہیں
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا

پاکستان میں جمہوریت کا قصہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ آزادی کے بعد کے سات عشروں میں کئی بار سویلین حکومتیں آئی ہیں، اور بارہا ان کو ماورائے آئین طریقوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ رجحان اس تواتر سے ظہور پذیر ہوا ہے کہ اب جب کبھی سویلین حکومت اقتدار میں آتی ہے، تو پہلے روز ہی سے کچھ لوگ اس کے دن گننا شروع کردیتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے۔ اچھی، بُری یہ جیسی بھی حکومت ہے، اس کے چل چلاؤ کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں بلکہ 2013ء کے انتخابات کے بعد جس دن سے اس حکومت نے عنانِ اقتدار سنبھالی ہے، اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں بھی جاری ہیں۔ اس سے قبل 2008 کے انتخابات اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد بھی اسی طرح کی پیش گوئیاں روزِ اوّل ہی سے شروع ہوگئیں تھیں۔جیسے تیسے اس حکومت نے اپنی مدت پوری کی۔

جمہوری نظاموں میں حکومتوں کا قیام اور اختتام، اور کسی جماعت کا اقتدار میں آنا اور اقتدار سے رخصت ہوجانا معمول کی بات ہوتی ہے۔ صدارتی نظام میں انتظامیہ کی ایک متعینہ مدت ہوتی ہے جبکہ پارلیمانی نظام میں اصل مدت مقننہ یا پارلیمنٹ کی ہوتی ہے اور انتظامیہ (یعنی وزیر اعظم اور اس کی کابینہ) مقننہ سے مشتق ہوتی ہے اور اسی کے سامنے جوابدہ بھی ہوتی ہے۔ جب تک مقننہ کا اعتماد وزیر اعظم کو حاصل رہتا ہے، وہ اپنی کابینہ کے ساتھ ذمہ داریاں ادا کرتا رہتاہے۔ پارلیمنٹ کے اعتماد سے محرومی کی صورت میں وہ مستعفی ہوجاتا ہے اور پارلیمنٹ اپنے اراکین میں سے کسی اور کو وزیر اعظم منتخب کرلیتی ہے۔

یوں ایک پارلیمنٹ اپنی طے شدہ آئینی مدت میں ایک یا ایک سے زیادہ وزیر اعظم منتخب کرسکتی ہے۔ اُس کی اپنی مدت بالعموم بغیر کسی خلل کے مکمل ہوجاتی ہے۔ بعض صورتوں میں پارلیمنٹ اپنی مدت کی تکمیل سے قبل بھی توڑی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے بھی آئینی طریقے موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک پارلیمنٹ بہت منقسم مینڈیٹ کی حامل ہو اور اس میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو اور یہ جماعت دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے میں بھی ناکام ہوجائے تو رائے دہندگان سے ازسر نو مینڈیٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

بعض اوقات ایک واضح اکثریت کی حامل حکومت بھی وقت سے قبل پارلیمنٹ کی تحلیل کی سفارش سربراہِ مملکت سے کرسکتی ہے، بشرطیکہ حکومتی جماعت کو یقین ہو کہ نئے انتخابات میں وہ از سرِ نو اکثریت سے جیت کر اور تازہ دم ہوکر دوبارہ اقتدار میں آجائے گی۔
گویا جمہوری نظاموں میں حکومتوں کا آنا اور جانا طے شدہ آئینی طریقوں سے ہوتا ہے اور یہ ایک معمول کے عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔

مگر پاکستان میں منتخب حکومتوں کی رخصت پارلیمنٹ کی مدت کی تکمیل کے ذریعے تو ایک آدھ مرتبہ ہی ہوئی ہے، زیادہ تر حکومتیں یا تو فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کی گئی ہیں یا پھر 1988ءاور 1996ء کے درمیانی عرصے میں آٹھویں آئینی ترمیم جو فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے 1985ء میں زبردستی آئین میں داخل کروائی تھی، کے تحت آرٹیکل 58(2)B کو بروئے کار لاتے ہوئے، تین حکومتیں (دومرتبہ بے نظیر بھٹو کی اور ایک مرتبہ نواز شریف کی)معزول کی گئیں۔(نواز شریف کی دوسری حکومت کا خاتمہ فوجی شب خونی کے ذریعے اکتوبر 1999ءمیں ہوا۔)

پاکستان میں سویلین حکومتوں کے آنے اور جانے کا سلسلہ اس تواتر کے ساتھ جاری رہا ہے کہ جمہوری معاشروں میں سیاسی اداروں کو جو تقدس حاصل ہوتا ہے اور رائے دہندگان کے ووٹ کو جس اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے وہ تقدس اور اہمیت ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوسکی۔ خاص طور پر ہمارے پڑھے لکھے اور اعلیٰ اور متوسط طبقے کے لوگوں میں ایک خاصی بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل رہی ہے جن کے نزدیک جمہوریت اور آمریت، سویلین اور فوجی حکومتوں میں کوئی فرق ہی نہیں۔ بلکہ ان لوگوں میں خاصی تعداد ایسے افراد کی بھی شامل ہے جو علی الاعلان فوجی حکمرانی کی وکالت بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ہمارے ملک میں اس لیے نہیں آسکی یا جمہوریت کو اس لیے استحکام حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ ہمارے یہاں تعلیم عام نہیں ہو سکی ہے۔ ہمارے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان یہ بات کہا کرتے تھے کہ پارلیمانی جمہوریت پاکستان جیسے ملکوں میں اس لیے نہیں چل سکتی کیونکہ ان ملکوں میں خواندگی کا تناسب بہت کم ہے۔

اس سے ملتی جلتی دلیل جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی دی گئی تھی اور انہوں نے قانون ساز اداروں کی رکنیت کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی رکھوادی تھی کہ ان اداروں کے لیے انتخاب لڑنے والوں کا کم از کم گریجوٹ ہونا ضروری ہے۔ اس طرح کے موقف وہی لوگ اور حلقے اختیار کرتے ہیں جو یا تو اشرافی نقطۂ نظر رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں تعلیم بھی ایک ایسا شرف یا اعزاز ہے جو کیونکہ معاشرے کے وسائل یافتہ لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے لہٰذا اسی محدود طبقے کو حکومت میں بھی آنے کا حق ہونا چاہیے۔

یا پھر یہ لوگ قومی امور میں فیصلہ سازی کے لیے تعلیم کو واحد ضرورت اور معیار تسلیم کرتے ہیں اور سماجی شعور کی، اُن کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی جو ظاہر ہے کہ تعلیم سے مشروط نہیں ہوتا۔ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ سماجی شعور سے عاری ہوسکتے ہیں اور تعلیم سے محروم لوگ سماجی شعور کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں بڑے بڑے انقلابات اور تحریکیں اور معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں ان حلقوں کے ذریعے بھی وقوع پذیر ہوئیں جو کوئی بہت زیادہ خواندہ یا تعلیم یافتہ نہیں تھے البتہ یہ حلقے سماجی شعور کے حامل ضرور تھے اور اسی کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ انقلابات اور سماجی تبدیلیوں کے محرّک بنے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک سے زائد مرتبہ ہمارے سامنے ایسے واقعات آچکے ہیں کہ پڑھے لکھے لوگوں نے غیر جمہوری اقدامات اور غیر جمہوری حکومتوں کی تائید میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہ ہمارے پڑھے لکھے طبقے کا ایک طبقاتی رویہ ہے جس کے پیچھے ملک کے پسے ہوئے اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات سے اپنے آپ کو بلند تر، زیادہ باخبر اور بہتر فیصلہ سازی کا اہل سمجھنا ہے۔ آج بھی ہمارے ٹی وی چینلوں کے تبصرہ نگار اور اخبارات، خاص طور سے اردو اخبارات کے بہت سے کالم نویس جس لہجے اور طنطنے کے ساتھ جمہوریت کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں، اس کے پیچھے واضح طور سے ایک سماجی رویہ دیکھا جاسکتا ہے۔

بظاہر جو جارحانہ اندازِ کار ملک کے سیاست دانوں کے حوالے سے اختیار کیا جاتا ہے، جس انداز سے اہلِ سیاست کو عمومی انداز میں تنقید بلکہ تمسخر کا موضوع بنایا جاتا ہے، اس کے پیچھے یہی سوچ اور ذہن کام کر رہا ہوتا ہے کہ سیاست دان لوگوں کوبے وقوف بنا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں، لوگوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں کی سی ہوتی ہے کہ ان کو جو چاہے ہانک  کرلے جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے سیاست دان ناخواندہ اور جاہل عوام سے جھوٹے وعدے کر کے یا ان کو چند پیسوں میں خرید کر ووٹ حاصل کر لیتے ہیں اور یوں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ سیاست، جمہوریت اور سیاسی عناصر کے حوالے سے اختیار کیا جانے والا یہ بیانیہ اخبارات ورسائل اور ٹی وی چینلوں پر صبح وشام پڑھا اور دیکھا جاسکتا ہے۔

ہمارے یہ اہلِ دانش ہمیں کبھی یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ ملک کے دوسرے اداروں میں، افسر شاہی اور فوج میں، ہمارے صنعتکاروں اور تاجروں میں اور یونیورسٹی اورکالجوں کے اساتذہ میں، ہمارے علماءکرام میں، غرض سیاست سے الگ دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں دیانت وامانت کی صورت حال کیا ہے اور وہ سب شعبہ ہائے زندگی جہاں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ لوگ پائے جاتے ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے؟

ملک میں سیاست اور جمہوریت کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں کے حوالے سے ہمارے اس نقطۂ اعتراض کا مقصد نہ تو تعلیم کی اہمیت سے انکار ہے اور نہ ہی ہم ملک کے سیاست دانوں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک اعلیٰ کردار اور بہترین سیاسی بصیرت کی حامل سیاسی قیادت منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ موجودہ سیاسی قیادت بھی خواہ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہو یا اس کا حزبِ اختلاف سے تعلق ہو، کسی طور بھی خامیوں سے مبرا نہیں ہے لیکن ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل کے نتیجے میں ہی ثمر بار ہوتی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت میں بے شمار خامیاں ہیں اور اسی مضمون میں ہم آگے چل کر ان کا تذکرہ بھی کریں گے اور ساتھ ہی ان کمزوریوں کے تدارک کے ممکنہ راستوں کی نشاندہی کی کوشش بھی کریں گے لیکن یہاں یہ دیکھنا مقصود ہے کہ جمہوریت سے بے زاری اور اس کے حوالے سے ملک میں اور خاص طور سے ذرائع ابلاغ میں سنکیت (cynicism)کا جورجحان پایا جاتا ہے اس سے قطعنظر ہم سیاسی عمل اور جمہوریت کو ملک کے لیے ناگزیر کیوں سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں کم از کم تین بنیادی اسباب کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ ان میں دو اسباب تاریخی نوعیت کے حامل ہیں جبکہ تیسرے کا تعلق پاکستان کے سماج اور یہاں کے سیاسی حقائق سے ہے۔

اس ضمن میں پہلی بات تو یہ قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کا قیام ایک سیاسی عمل کے نتیجے ہی میں ممکن ہوا تھا۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے وقت ہمارا مدعا کوئی منطقی دلیل وضع کرنا نہیں ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ پاکستان ایک سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا لہٰذا آزادی کے بعد بھی اس کا ارتقا سیاسی اور جمہوری اندازہی سے ہونا چاہیے۔

ہم اس منطق کا سہارا اس لیے نہیں لینا چاہتے کیونکہ اس کے جواب میں کوئی شخص ایک اور منطقی نقطہ پیش کرسکتا ہے اور یہ رائے دے سکتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ کوئی چیز جس ذریعے سے وجود میں آئے بعد میں وہی اس کی راہ عمل بھی ٹھہرے۔ تاریخ میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ ریاستوں کے وجود میں آنے سے قبل کے تصورات بعد میں تبدیل ہوگئے اور ان ریاستوں نے ماضی سے ہٹ کر اپنا کچھ اور رخِ کردار متعین کرلیا۔

اشتراکیت کے نام پر وجود میں آنے والا عوامی جمہوریہ چین آج ایک سرمایہ دار ریاست ہے اور عالمی سطح پر سرمایہ داری کی دوڑ میں پیش پیش ہے۔ برطانیہ اور جاپان جیسی ملوکیتیں، جمہوریتوں کے قالب میں ڈھل گئیں اور آج ان میں بادشاہت محض برائے نام اور صرف نمائشی طور پر موجود ہے۔ سو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مانا کہ پاکستان کا قیام سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ہوا اور اس خوف نے کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندوستان کے جمہوری درو بست میں مسلمان، ہندو اکثریت کے مقابلے میں ایک مستقل اقلیت بن جائیں گے، اُن کو ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کرنے پر مائل کیا۔

لیکن اس تاریخی حقیقت کے باوجود اگر پاکستان کے اندر داخلی استحکام کے لیے جمہوریت سے ہٹ کر کوئی نظام کار آمد ہوسکتا ہے تو اس کو اختیار کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ الیگزنڈر پوپ نے تو کہا ہی تھا کہ ’طرز حکومت کے بارے میں احمقوں کو لڑنے دو، جو نظام خوبی سے چل سکے اس کو چلاﺅ‘۔ الیگزنڈر پوپ کی اس منطق کو ہمارے یہاں بڑی خوش دلی کے ساتھ اختیار بھی کیا گیا اور ہر فوجی آمر نے یہی کہہ کر عنانِ اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھی کہ پاکستان کے لیے ان کا لایا ہوا نظام ہی موزوں ترین ہے۔ چنانچہ مارشل لاءکے ذریعے، عبوری آئینی حکم ناموں (Provisional Constituional Orders) کے ذریعے، اور بی ڈی سسٹم جیسے خود ساختہ بلدیاتی نظاموں کو اختیار کر کے، جمہوریت کے متبادل نظام متعارف کروائے گئے۔

ہماری دانست میں پاکستان میں جمہوریت کی ضرورت بلکہ ناگزیریت کی تاریخی دلیل، منطق سے زیادہ حقیقی تاریخی عوامل میں اپنی بنیاد رکھتی ہے۔ یہ تاریخی عوامل کیا تھے؟ بہت زیادہ گہرائی میں نہ بھی جائیں تب بھی جن معروضی حقیقتوں کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے ان میں سر فہرست یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں استعماری دور کے آغاز کے ساتھ ہی جس نظمِ حکمرانی کی داغ بیل ڈالی گئی اور جس نظم کے تحت ہندوستان کے طول وعرض میں نمائندہ اداروں کے قیام کی شروعات ہوئیں، وہی عمل آگے جاکر جداگانہ مسلم تشخص اور پھر مزید آگے جا کر ایک علیحدہ مسلم مملکت کے مطالبے پر منتج ہوا۔ پاکستان میں جمہوریت کا ’خواب‘ نہیں دیکھا گیا بلکہ اُس سیاسی عمل کا آغاز دن کی روشنی میں ہوا اور اُس عمل سے ہزاروں لاکھوں لوگ وابستہ بھی ہوئے جس عمل کی ایک منزل پاکستان کا قیام تھا۔ پھر نمائندہ اداروں کا مطلب صرف چند اداروں کو قائم کر دینا نہیں تھا بلکہ یہ اپنے جَلو میں ایک جدید سیاسی فلسفے، نمائندگی کے جدید سیاسی تصورات، رائے دہی کے اصولوں، تحریر وتقریر اور آزادی اجتماع کے حقوق، نیز قانون کی بالادستی کی فکر کو بھی ساتھ لے کر آئے۔

چنانچہ ہندوستان میں نمائندہ اداروں کے قیام کے ساتھ ہی ایک نئے طرز کی سیاسی فضا قائم ہونا شروع ہوئی۔ اسی فضا میں کانگریس اور مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اسی میں سیلف رُول کے مطالبات کیے گئے، اسی میں رائے دہی کے دائرے کو وسیع کرنے کے مطالبات نے جنم لیا ۔ یہی سیاسی فضا تھی جس میں ہندو مسلم سیاسی تضاد یا فرقہ وارانہ (Communal) سیاست پیدا ہوئی۔ اسی میں اس سیاست کے تضاد کو حل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور ان کوششوں کی ناکامی پر ہی ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ منظر عام پر آیا۔ چنانچہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ ممکن ہی اس لیے ہوا کہ اس کے پیچھے ایک ایسا سیاسی عمل موجود تھا جس کے ڈانڈے برصغیر میں نمائندہ اداروں کے قیام سے ملتے تھے۔

قیام پاکستان سے قبل شروع ہونے والے نمائندہ اداروں کے نظام اور ان اداروں کے گرد فروغ پانے والے سیاسی تصورات کا تقاضا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ان اداروں اور تصورات کو عہد غلامی کے استعماری اثرات سے باہر نکالا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کو جو ادارے ورثے میں ملے تھے اُن کو اپنے استعماری پس منظر سے نکال کر ایک آزاد اور خودمختار جمہوری ریاست کی پشتِ پناہی فراہم کی جانی تھی۔

یہ ایک سیدھا سیدھا ردِ استعماریت (de-colonisation) کا پراجیکٹ تھا، جس کو آگے نہیں بڑھایا جاسکا۔ بلکہ ابتدا ہی میں اس کی بیخ کنی کر دی گئی اور یہ کام اُن اشخاص اور اداروں نے کیا جو استعمار ہی کے پروردہ تھے۔ قیام پاکستان کے چند ہی ماہ کے اندر اندر سول اور عسکری افسر شاہی نے ریاست کے اقتدار پر تصرف حاصل کر لیا اور ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کے لیے گنجائش باقی نہیں رکھی۔ گزشتہ ستر برسوں میں سول حکومتوں کے کچھ ادوار ضرور آتے رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی حکومت بھی اتنی مضبوط نہیں ہونے دی گئی کہ وہ پھر آئندہ کے سیاسی اور جمہوری عمل کے تسلسل کی ضمانت بن سکتی۔

پاکستان میں جمہوریت کی ناگزیریت کے ضمن میں جو دوسری دلیل دی جاسکتی ہے اس کا تعلق بھی تاریخی حقائق سے ہے۔ یہ حقائق ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسئلے سے عہدہ برا ہونے کے لیے ہندوستان کی تقسیم کے فیصلے کے نتیجے میں منظر عام پر آئے۔ ایک مرتبہ جب یہ طے ہو گیا کہ اب ہندوستان کو تقسیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں تو سوال پیدا ہوا کہ ہندوستان کے طول وعرض میں بکھرے ہوئے مسلمان کس طرح ایک مملکت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ مطلوبہ علیحدہ مملکت مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ہوسکتی ہے۔

لیکن اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ ان مسلم اکثریتی صوبوں سے ان کی اس تجویز کے لیے تائیداور توثیق حاصل کی جائے۔ سو یہ مسلم اکثریتی صوبوں کی اسمبلیوں کے مسلم ارکان تھے یا صوبہسرحد کے معاملے میں ریفرنڈم تھا یا کوئٹہ کی کمشنری کے حوالے سے وہاں کی میونسپلٹی تھی جنہوں نے پاکستان کا وفاق تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔

اس مرحلے پر بنگال نے قبل اس کے کہ مسلم اراکین اسمبلی کچھ فیصلہ کرتے، کانگریس کے اراکین نے ہندوستان میں شمولیت کا فیصلہ کر دیا اور یوں مشرقی بنگال پاکستان کے حصے میں اور مغربی بنگال ہندوستان کے حصے میں آیا۔ تقسیمِ ہند اور قیام پاکستان کا یہ طریقہکار اپنے جوہر میں جمہوری نوعیت کا حامل تھا۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا وفاق ایک ایسے معاہدۂ عمرانی پر استوار ہوا ہے جس کے اندر وحدتوں کے آپس میں مل کر چلنے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ یہ عمرانی معاہدہ پاکستان کی اساس ہے اور یہ ہی وفاقِ پاکستان کے تسلسل اور استحکام کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔

کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کی بحیثیت مجموعی عدم موجودگی کے باوجود ملک تو چل ہی رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ ہم اپنے ماضی سے چشم پوشی نہ کریں تو چند انتہائی تلخ حقائق ہمارے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو، ملک میں جمہوریت کی عدم موجودگی، سیاسی عمل کے روک دیے جانے، اور ایوب خان اور یحییٰ خان کے فوجی اقتدار کے زمانے میں ملک کے دونوں حصوں کے درمیان وسیع ہو جانے والی سیاسی ونفسیاتی خلیج، جیسے حقائق سے لاتعلق ہو کر کیسے سمجھ سکتے ہیں۔

اور جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے اقتدار کے دنوں میں علی الترتیب سندھ اور بلوچستان جس طرح وفاقِ پاکستان سے شکوہ کناں بلکہ گریزاں رہے، اس سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ چنانچہ اس امر کو تسلیم کر لینے میں ہمیں کسی طرح کا عذر نہیں ہونا چاہیے کہ جب جب پاکستان میں فوجی آمریتوں کا دور دورہ ہوا تو اس کی براہ راست ضرب وفاقِ پاکستان پر پڑی۔

پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ ایک تیسری دلیل سے بھی کمک حاصل کرتا ہے۔ جمہوری حکومتوں کو ہدفِ تنقید بنانے والے جائز اور ناجائز سینکڑوں جواز پیش کرتے ہیں جن کا حاصلِ کلام یہ ہوتا ہے کہ جمہوری حکومتیں اتنی نااہل اور ناکام ثابت ہوتی رہی ہیں کہ ان کی رخصتی کی دعائیں کی جاتی رہی ہیں اور ان کے معزول کیے جانے پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے رہے ہیں۔

ملک کی گلیوں، محلّوں اور بازاروں میں مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور آنے والے فوجی حکمرانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ خود فوجی حکمران بھی اپنے جواز (legitimacy) کی بنیاد سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں کی مبینہ ناکامی پر رکھتے ہیں اور یہی باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر سیاست دان اچھے ہوتے اور ان کی حکومت کرپشن اور دیگر برائیوں میں ملوث ہوکر ملک کو ایک شدید بحران سے دوچار نہ کردیتی تو اُن کو یہ گند صاف کرنے کے لیے سیاست میں مداخلت نہ کرنی پڑتی۔

سوال یہ ہے کہ اگر سیاست دان بار بار ناکام ہوتے رہے ہیں اور ان کی حکومتیں ایک سے زائد مرتبہ معزول کی جاچکی ہیں اور پھر یہ کہ اگر ہر مرتبہ اصلاحِ احوال کے لیے فوج کو مداخلت کرنی پڑتی ہے اور یہ بھی کہ اگر ہر مرتبہ فوج حالات کو سنبھال لینے اور ملک کو دوبارہ ترقی کے راستے پر ڈال دینے میں کامیاب ہوتی رہی ہے تو کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ پھر یہ کامیاب فوجی حکومتیں چلی کیوں جاتی ہیں؟ خود ان کو زوال کیوں آجاتا ہے؟ ان کے خلاف کیوں لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں؟

ایوب خان کے خلاف ملک گیر عوامی تحریک کیوں چلتی ہے؟ جنرل ضیاءالحق کو ایم آرڈی کی احتجاجی تحریک کو توپ وتفنگ سے کچلنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اور جنرل مشرف بلوچستان میں فوجی آپریشن پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟

تقریباً ستر سال (70) کے سیاسی سفر اور چار مرتبہ فوجی اقتدار کا تجربہ کرنے کے بعد اب یہ سوال کرنا بے جا نہ ہوگا کہ چلیں سیاسی حکومتیں تو نااہل تھیں اور ان کی غلطیوں اور ناکامیوں نے فوجی اقتدار کا راستہ ہموار کیا لیکن فوجی حکومتوں کو کس مجبوری کے تحت اقتدار سویلین کو دینا پڑا۔

جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں شرمناک شکست اور آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی علیحدگی کے بعد سویلین حکومت کیوں بحال کی، ضیا الحق کے حادثے کے بعد فوج نے کیوں اقتدار پر اپنا تسلط برقرار نہیں رکھا اور جماعتی بنیادوں پر انتخابات پر آمادگی ظاہر کر کے سویلین حکمرانوں کو اقتدار کے منصب پر فائز ہونے کی اجازت دی یا پھر جنرل پرویز مشرف کے ’کامیاب‘ اقتدار کا خاتمہ سویلین حکومت کی بحالی کی شکل میں کیوں ہوا؟

ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے تو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ فوجی حکمرانی نہ تو سیاست دانوں کی ناکامی کی تلافی کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے نتیجے میں ملک کے بنیادی مسائل حل ہو پائے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے اثرات کے حوالے سے فوجی حکومتیں سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان دہ اور ملک کے استحکام کے نقطۂ نظر سے کہیں زیادہ ضرررساں ثابت ہوئی ہیں۔

ایوب خان کی حکومت، اُس تمام پروپیگنڈے کے باوجود جو اُن کے دور میں اقتصادی ترقی کے حوالے سے کیا گیا، ملک میں شدید قسم کی عمودی اور افقی تفریق کاباعث ثابت ہوئی۔ یہ اُن کی پالیسیوں ہی کا نتیجہ تھا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہوئی اور پھر جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں 1970ءکے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں اُس بحران نے جنم لیا جس کا حل بندوق کی گولی سے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس عاقبت نا اندیشانہ طرز عمل کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ جنرل ضیا ءالحق کے زمانے میں بحالی جمہوریت کی کوششوں کو بہ زور دبانے کے عمل میں سندھ کا صوبہ فوجی آپریشن کی زد میں آیا اور یوں ہمارے قومی وجود پر وہ زخم لگے جو آج تک بھی صحیح طور پر مندمل نہیں ہو سکے ہیں۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے ناراض اور وفاقِ پاکستان سے دلبرداشتہ عناصر کے ساتھ سیاسی انداز میں عہدہ برا ہونے کے بجائے فوجی راستہ تلاش کیا گیا اور یوں اس صوبے کو بھی نفسیاتی طور پر وفاقِ پاکستان سے بہت دور کر دیا گیا۔

یہ تو فوجی حکومتوں کے، مختلف صوبوں کے حوالے سے بحرانوں کو جنم دینے اور پھر بندوق کے زور پر حل تلاش کرنے کی مثالیں ہیں۔ اگر یہ فوجی آپریشن نہ بھی ہوئے ہوتے تب بھی فوجی قیادت قومی وحدت اور ملک کی سالمیت کے جو تصورات رکھتی ہے وہ ملک کے حقیقی وفاقی تشخص اور صوبوں کی خود مختاری کے نقطۂ نظر سے بڑی حد تک غیر متعلق رہے ہیں۔ فوجی ذہن وحدت کا جو تصور رکھتا ہے اور جس کے گرد فوج کے ادارے کی تشکیل وتعمیر ہوتی ہے وہ شہری زندگی اور تمدّن کے حقائق سے کوسوں دور ہوتی ہے۔

متمدن معاشرت، وحدت اور یکسانیت کے درمیان تمیز کے تصور پر قائم ہوتی ہے۔ ایک متمدن معاشرے کے اندر اتحاد کے نام پر یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ خلافِ فطرت بھی ہوتی ہے اور لازماً ناکامی سے بھی دوچار ہوتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں شہریوں سے مرکب معاشرہ اگر تکثیریت کے اصول کو نظر انداز کردے تو وہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر رہا ہوتا ہے۔ انسان نے سماجی ارتقا کے سفر میں یہ زرّیں سبق سیکھا ہے کہ حقیقی اتحاد کثرت کے اعتراف کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔

تنوعات ،معاشرے کا حُسن ہوتے ہیں اور اس حُسن کے فروغ ہی سے ایک اتحاد کی شکل نمو پاتی ہے۔ انسانی معاشرے نہ تو ایک فردِ واحد کے زرخیز ذہن کی تابعداری کرتے ہیں اور نہ ہی ایک فردِ واحد کا شعور خواہ وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو پورے معاشرے کو رہنمائی فراہم کرسکتا ہے۔ یہ بھی انسان نے صدیوں پر محیط اپنے تجربات ہی سے سیکھا ہے کہ معاشرے کا اجتماعی شعور اور مختلف الخیال انسانوں کی اجتماعی بصیرت ہی کسی بھی صورت حال کے اندر راہ کشائی کا بہتر ذریعہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ ایک بڑے سوال سے جڑا ہوا ہے۔ وہ سب تاریخی اور معاشرتی وسیاسی حقائق اپنی جگہ جو ملک میں جمہوریت کے نفاذ کا جواز فراہم کرتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ جمہوریت کا کوئی متبادل ہمارے یہاں کامیاب ثابت نہیں ہوا بلکہ ان متبادل صورتوں نے تو قومی وحدت کو ہی پارہ پارہ کر کے رکھ دیا لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری جمہوریتیں یا سویلین حکمرانی کے ادوار ان توقعات پر پورے کیوں نہیں اترے جو ان سے وابستہ کی گئی تھیں؟

سیاست دانوں نے اپنی ناکامی سے کیا سبق حاصل کیا؟ اور کیا ہماری سویلین سیاست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوئی بہتری بھی آئی ہے کہ نہیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے اور جمہوریت کے عدمِ استقلال کے اسباب کا کھوج لگایا جائے تو مندرجہ ذیل عوامل ہمارے سامنے آتے ہیں:


۱۔  یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں خود ہم نے اس امر کی نشاندہی کی بھی تھی کہ برصغیر کی جدید تاریخ میں نمائندہ اداروں کے قیام سے جس سیاسی عمل کا آغاز ہوا تھا، آزاد پاکستان کے اندر اسی پر تعمیر اور اس کی توثیق نئی مملکت کے سماجی اور معاشرتی حقائق کے تناظر میں ہونی چاہیے تھی۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں جمہوری اداروں کی توسیع اور تشکیلِ جدید اس امر کی متقاضی تھی کہ عہد غلامی کے سماجی اور سیاسی دروبست کو تبدیل کیا جاتا اور ردِ استعماریت (de-colonalisation) کو بنیادی قومی ہدف بنایا جاتا۔

اس کے لیے ضروری تھا کہ ملک میں فیوڈل ازم کو ختم کیا جاتا اور ملک کے جن خطّوں میں قبائلی نظام کا دور دورہ تھا، وہاں روایتی قبائلی اداروں کی جگہ جدید سیاسی ادارے اور قوانین پہنچائے جاتے۔ ہمارے یہاں یہ کام نہیں ہوسکا اور ماضی میں دو تین مواقع پر جو زرعی اصلاحات متعارف کی گئیں وہ بھی صرف جزوی حد تک ہی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں جبکہ دیہی معیشت اور معاشرت بڑی حد تک پرانے اسلوب ہی پر کار بند رہی۔ اب گزشتہ تیس، چالیس برسوں میں وقوع پذیر ہونے والی سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں روایتی سیاسی اشرافیہ کی طاقت میں کمی کے آثار پیدا ہوئے ہیں اور انتخابی سیاست میں ایسے نئے عناصر بھی شامل ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے سیاسی عمل کا حصہ نہیں تھے۔ لیکن بحیثیت مجموعی اب بھی دیہی معیشت اور سیاست پر پرانے روایتی خاندانوں کا اثرورسوخ برقرار ہے۔

دیہی معاشرے میں معاشی تفوّق اور سیاسی اختیار کا جو رشتہ ماضی میں پایا جاتا تھا وہ اب بھی بڑی حد تک موجود ہے۔ البتہ اگر پہلے کسی علاقے میں اقتصادی تفوّق اور سیاسی اختیار کسی ایک فرد کے پاس تھا تو اب اس کے حامل ایک سے زیادہ افراد ہوچکے ہیں۔ چنانچہ پارلیمانی طرز کی سیاست میں جہاں حلقہ بندیاں علاقائی بنیاد پر کی جاتی ہیں،سیاسی جماعتیں انتخابی ٹکٹ دیتے وقت یہ دیکھنا پسند کرتی ہیں کہ کسی ایک حلقے میں موجود امیدواروں میں کس امیدوار کے جیتنے کے امکان زیادہ ہیں۔ اسی چیز نے ہماری سیاسی لغت میں قابلِ انتخاب (electables) کی اصطلاح کو متعارف کروایا ہے۔

یہ سارا نظام اقتصادی اشرافیہ کی بالادستی ہی کو یقینی بنانے کا سبب بنتا ہے۔ اسی کی وجہ سے سیاسی جماعتیں عام شہریوں کی نمائندہ بننے کے بجائے اشرافیہ کی خواہشات کی تکمیل پر مجبور ہوتی ہیں اور اسی نظام کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے اپنے کارکن غیر موثر اور عضوِ معطل بن کر رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان میں جمہوریت کو ایک بہتر شکل دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سماجی دروبست میں ایسی دُوررس اور معنوی اصلاحات کی جائیں جن کے نتیجے میں اشرافیہ کی یہ بالا دستی ختم ہوسکے۔


۲۔ پاکستان میں جمہوریت کے عرصہحیات کے تنگ رہنے کا دوسرا اہم سبب وہ عدم توازن ہے جو آزادی کے بعد سے ہی ہمارے سیاسی اداروں اور دوسری طرف عسکری وانتظامی اداروں کے درمیان پیدا ہوگیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد ملک میں غیر معمولی صورت حال پائی جاتی تھی۔ ملک کا آغاز خاصی بے سروسامانی کے عالم میں ہوا تھا، تقسیم ہند کے نتیجے میں امن وامان کی جو صورتِ حال پیدا ہوئی، پھر جس بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی اور ہجرت عمل میں آئی، مہاجرین کی آبادکاری، ریاستی اداروں کا قیام، مرکز میں مالیاتی وسائل کو بہم کرنے کا چیلنج، پھر ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ اور کشمیر میں باقاعدہ جنگ کے محاذ کا کھل جانا__یہ اور ایسے ہی مسائل اتنے ہمہ گیر اور منہ زور تھے کہ ان سے عہدہ برا ہونے کے لیے جس سیاسی بصیرت اور تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت تھی وہ مسلم لیگ کے پاس موجود نہیں تھا۔

آزادی کے بعد کے ہندوستان اور پاکستان میں ایک بنیادی فرق مضبوط اور ملک گیر کانگریس، اور ایک شخصیت کے گرد منظم ہونے والی اور ہر صوبے میں گروہوں میں تقسیم شدہ مسلم لیگ کافرق تھا۔ سوہندوستان میں کانگریس کی مضبوطی نے اس کو حالات پر کنٹرول کرنے کے لیے سہولت فراہم کی جبکہ پاکستان میں شدید داخلی کمزوریوں کی حامل مسلم لیگ کو ہندوستان سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا تھا۔ یہ ان حالات کا نتیجہ تھا کہ انگریز کی تربیت یافتہ سول سروس نے عنانِ اقتدار سنبھالنے میں دیر نہیں لگائی اور ابتدائی برسوں ہی میں ملک کی عسکری قیادت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر سول ملٹری بیوروکریسی کا وہ اتحاد قائم کیا جو بعد کے برسوں میں پاکستانی ریاست کا تشخص قرار پایا۔

سول ملٹری بیوروکریسی اس امر پر کامل یقین رکھتی تھی کہ سیاست دان ملک کے حالات کو سنبھال نہیں سکیں گے، بلکہ وہ مزید عدم استحکام پیدا کریں گے اور یہ کہ ملک کو بقا اور اس کے استحکام کے لیے انہیں ہی یعنی سول ملٹری بیوروکریسی کو ہی آگے آنا ہوگا۔ چنانچہ ابتدائی گیارہ برسوں میں ہی سول ملٹری بیوروکریسی ملک کی فیصلہ سازی کے امور اپنے ہاتھ میں لے چکی تھی۔

یہ بنیادی اقتصادی فیصلے ہوں یا خارجہ پالیسی کے خدوخال کو طے کرنے کا کام، یا پھر قومی سلامتی کے امور، ان تمام چیزوں کے بارے میں اصل فیصلے سول ملٹری بیوروکریسی ہی کی سطح پر ہوتے رہے، جبکہ سیاسی حکومتوں کی آمدورفت بھی جاری رہی، اور ایک عام پاکستانی کی نظروں میں صرف یہی آتا رہا کہ آج خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم ہیں تو کل محمد علی بوگرہ وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ ایک دن حسین شہید سہروردی وزیراعظم ہوتے ہیں تو اگلے دن آئی آئی چندریگر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز نظر آتے ہیں ۔سیاسی حکومتوں کی یہ میوزیکل چیئر بھی سول ملٹری بیوروکریسی کی مرضی ومنشا ہی سے چل رہی تھی۔

 1956ءکے دستور کی منظوری کے بعد بیوروکریسی کے ایک اہم سرغنہ،صدر اسکندر مرزا ہی کے اشارے پر چار وزرائے اعظم صرف ڈھائی سال کے عرصے میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے گئے۔

آزادی کے ایک عشرے کے بعد سیاسی حکومتوں کا تکلف بھی ختم کر دیا گیا اور فوج براہ راست طور پر اقتدار پر فائز ہوگئی سول سروس اس کی شریک کار اور ریاستی اقتدار میں ساجھے دار بنی رہی۔ بعد کے برسوں میں اس اقتدار کے گٹھ جوڑ میں سول سروس کا پلڑا کمزور اور فوج کا وزن بڑھتا چلا گیا۔ آج پاکستان میں جب مقتدرہ (establishment) اور سیاسی اداروں کے درمیان تضاد کی بات ہوتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ سے بنیادی طور پر مراد فوج ہی لی جاتی ہے۔

فوجی تفوّق کے اس طویل عرصے میں جہاں ایک طرف فوج نے اپنی طاقت میں اور ساتھ ہی ساتھ ریاست کے اقتصادی امور میں اپنے مفادات کی بڑے پیمانے پر تخم ریزی کر دی ہے، نیز ملک کے انتظام وانصرام میں بھی فیصلہ کن کردار حاصل کر لیا ہے، وہاں دوسری طرف سیاسی عناصر شدید داخلی کمزوریوں اور تضادات کے حامل نظر آتے ہیں قومی اور ریاستی امور میں فوج کے بالادست کردار کے نتیجے میں اور فوج کے اپنے اقتصادی مفادات کی وجہ سے ریاست کا تشخص ایک قومی سلامتی کی ریاست کا تشخص بن گیا ہے جو جمہوریت کے فلسفے اور شہریوں کی بالادستی کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔


۳۔ ریاست کے امور میں فوج کو حاصل ہو جانے والے بالادست کردار کو سیاسی حاکمیت سے بدلنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ راستہ سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کی اصلاح اور سیاسی کلچر کو زیادہ سے زیادہ جمہوری بنانے کا راستہ ہے۔ فوج کو سیاست سے دور رکھنا ایک ارفع مقصد، اور ایک نیک خیال تو ہوسکتا ہے، لیکن اس خیال کو عملی تعبیر سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو ایک بڑے جمہوری پروگرام پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار کریں۔

گزشتہ ستر برسوں میں بے شمار سیاسی بحرانوں اور ان گنت سیاسی غلطیوں کے ساتھ ساتھ ہماری تاریخ میں کچھ ایسے مراحل بھی ضرور آئے جب سیاست دانوں نے زیادہ سمجھداری اور بالغ نظری کا مظاہرہ بھی کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1973ءکے آئین کی تیاری اُس وقت کی سیاسی قیادت کا ایک مثبت کا م تھا۔ یہ آئین بہت سی کمزوریوں کا بھی حامل تھا اور اس میں ریاست کے کردار، پارلیمانی نظام اور ملک کے وفاقی دروبست کے حوالے سے اصلاح کار کی بہت گنجائش موجود تھی، تاہم 1973ءتک سرزمین بے آئین ہونے کی تہمت کے حامل ملک کے لیے پہلی مرتبہ ایک متفقہ اور عوام کے ووٹوں سے وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی کا بنایا ہوا آئین ایک بڑی کامیابی ہی تصور کیا گیا۔

اسی طرح 1980ء اور 1990ء کے عشروں کی سیاسی نبرد آزمائی کے تناظر میں 2006ء میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان طے پانے والے میثاقِ جمہوریت نے بھی ماضی کی غلطیوں کے تعین اور مستقبل میں اٹھائے جانے والے متفقہ اقدامات کی نشاندہی کے ضمن میں ایک مثبت کردار ادا کیا۔ میثاق جمہوریت کو ملک کے آزاد پریس اور رائے عامہ کی تائید حاصل ہوئی اور سول سوسائٹی نے بھی اس کو ایک مثبت اقدام قرار دیا۔

تب سیاسی قیادت نے اعتماد کی راہ پر ایک اور قدم آگے بڑھایا اور 2008ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کی ایک کل جماعتی آئینی کمیٹی نے دستور کی اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا، جس کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر سندِ قبولیت عطا کی۔ اٹھارہویں ترمیم نہ تو کوئی آسمانی صحیفہ ہے کہ جس میں کوئی خامی نہ ہو اور نہ ہی یہ آئین میں موجود تمام قابل ترمیم شقوں کو ہی اپنا ہدف بنا سکی ہے، لیکن جو کچھ اور جتنا کچھ اٹھارہویں ترمیم نے کیا ہے، وہ اپنی کمیت اور کیفیت دونوں میں ایک بہت بڑا واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس ترمیم کے نتیجے میں ایک غیر معمولی مرکزیت پسندی کا حامل وفاقی نظام ،عدم مرکزیت(decentralisation) کی جانب بڑھا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا نامیاتی وفاق (organic federation) ایک تعاونی وفاق (cooperative federation) میں ڈھل گیا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس کے ذریعے کتابِ دستور میں عدم مرکزیت کے جو دروازے کھلے ہیں، عملدرآمد کے نقطہنظر سے ابھی یہ عدم مرکزیت صرف جزوی طور پر ہی منظر عام پر آئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عدم مرکزیت کے لیے یہ ساری تگ ودو کی گئی تھی، اس کو ہماری سیاسی جماعتیں ابھی تک روبہ کار نہیں لاسکی ہیں۔ اس ناکامی کا سبب صوبوں میں اہلیت اور تجربے کی کمی بھی ہوسکتی ہے اور مرکز میں تاریخی طور پر پائی جانے والی مرکزیت پسندانہ سوچ اور سرشت بھی، جس کے نتیجے میں عدم مرکزیت کے منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں حائل کی جاتی رہی ہیں۔


۴۔ پاکستان میں جمہوری استحکام کے نقطۂنظر سے سیاسی جماعتوں کے اندر داخلی جمہوریت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ شاید ہی پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اپنی تنظیم کے اندر جمہوری کلچر کی موجودگی کا ایسا دعویٰ کرسکے جس کو سب تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں۔ ملک کی بڑی اور ملک گیر سیاسی جماعتیں جمہوری رویوں کے حوالے سے سب سے پیچھے نظر آتی ہیں، خواہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (نواز) ، یا پھر تحریک انصاف، ان میں سے کوئی بھی جماعت خود اپنے آئین میں درج کی گئی شقوں پر عمل کرتی نظر نہیں آتی۔

جماعتوں کے آئین کے اندر جن اداروں کو جگہ دی گئی ہے، ان کے اجلاس مہینوں اور بعض اوقات برسوں طلب نہیں کیے جاتے۔ ہر پارٹی کے اندر ایک کچن کیبنٹ موجود ہے اور بعض جماعتوں کے اندر تو ایک ہی گھرانے کی بادشاہت ہے اور سارے فیصلے، اور خاص طور سے انتخابات میں ٹکٹ دینے سے متعلق فیصلے، ان ہی کچن کیبنٹوں میں کیے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن ان جماعتوں میں صرف اسٹیج سجانے، سامعین کو لے کر آنے اور نعرے لگانے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ پارٹی کے ٹکٹ کن لوگوں کو دیے جائیں، اس موضوع پر کارکنوں سے رائے لینا ان جماعتوں کے قائدین کے حاشیہ خیال ہی میں نہیں آتا۔


۵۔  سیاسی جماعتوں میں اور خاص طور سے ملک کی دوبڑی جماعتوں میں موروثیت کی کارفرمائی غالب ہے۔ اب سیاسی محققین یہ بھی بتا رہے ہیں کہ سیاسی خانوادے تیزی کے ساتھ انتخابی سیاست پر قابض ہوتے جارہے ہیں اور کم از کم پنجاب میں قومی اسمبلی کی چالیس سے پچاس فیصد نشستوں پر کامیاب ہونے والے یا کامیاب امیدواروں کا مقابلہ کرنے والے امیدوار اپنے اپنے علاقے کے کسی نہ کسی ایسے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے علاقے کی سیاست میں پچھلے تیس چالیس برسوں ہی میں قدم رکھا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف اپنی مرکزی قیادت کی حد تک ہی نہیں ، بلکہ اسمبلیوں کے حلقوں کی سیاست کی سطح پر بھی، نئے یا پرانے خانوادوں کی سیاست کا وسیلہ بن رہی ہیں۔ اس نوع کی سیاست کا ملک کے وسیع تر تناظر میں جو اثرمرتب ہوگا وہ عوام اور خاص طور سے پسے ہوئے طبقات کی سیاسی عمل سے لاتعلقی کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے۔


۶۔ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا ایک اور بڑا سبب معاشرے میں ظہور پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے ان کی لاتعلقی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر بلند بانگ دعوے تو ضرور کرتے ہیں، لیکن خود سماج کی سطح پر کس طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں، یا سماجی تبدیلیوں کی نوعیت کیا ہے، اس کے بارے میں اُن کے پاس زیادہ سے زیادہ ایک واجبی سا ہی علم ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے پیچھے اُس طرح کے تحقیقی ادارے اور تھنک ٹینک نہیں رکھتیں، جس طرح کے ادارے اور تھنک ٹینک جمہوری ملکوں اور معاشروں کا خاصہ سمجھے جاتے ہیں۔ تحقیق سے بے اعتنائی اور معاشرے کے حقیقی مسائل سے واقفیت میں عدم دلچسپی، ان جماعتوں کو اس لائق نہیں چھوڑتی کہ وہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک میں کوئی بامعنی تبدیلی یا کسی بھی شعبے میں کوئی بڑا اصلاحی اقدام متعارف کرانے کا سوچ سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ بالعموم سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد سرکاری افسروں کی مرہون منت بن کر رہ جاتی ہیں یا پھر وہ پبلک پلیٹ فارم پر لفاظی کا سہارا لیتی ہیں اور اپنے مخالفین پر اُسی طرح کیچڑ اچھالنے لگتی ہیں جس طرح یہ مخالفین اُن پر کیچڑ اچھال رہے ہوتے ہیں ایسے میں ٹی وی چینلوں کی بھی بن آتی ہے جو روزانہ اپنی اسکرین پر معرکہ آرائی کا اسٹیج سیٹ کرتے ہیں۔ یوں سیاست مزید پرا گندہ ہوتی جاتی ہے۔

حرفِ آخر کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے سماجی ومادی حقائق اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہاں شہریوں اور ریاست ، اور وحدتوں اور مرکز کے درمیان ایسا قابلِ عمل اور دیر پا بندوبست طے کیا جائے جو انصاف اور باہمی اعتماد کے کلچر کوفروغ دے سکے۔ پاکستان میں جمہوری استحکام کے لیے سیاسی جماعتوں کا اندرونی طور پر مستحکم ہونا اور ان کی علمی اور تحقیقی جہت کا نمایاں اظہار غیر معمولی اہمیت کے حامل عناصر ہیں۔ پاکستان کا معاملہ بہت مشکل ہونے کے باوجود بہت سادہ بھی ہے۔

ملک کے استحکام کے لیے جمہوریت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں لیکن خود جمہوریت کے استحکام کے لیے جو چیلنجز درپیش ہیں اُن سے عہدہ برا ہونے کی ابتدائی اور بنیادی ذمہ داری بھی سیاسی جماعتوں ہی کی ہے۔ جمہوریت کے شاکی عناصر اور ملک کے ہر مرض کا سبب اہل سیاست کو قرار دینے والے مایوس اور کلبیت پسند عناصر بھی اُسی وقت تک اپنی زبان وبیان کے جوہر دکھاتے رہیں گے جب تک ایک بھرپور جمہوری کلچر کے اشارے نمایاں نہیں ہوں گے اور سیاسی عزم (political will) ہمارے سیاسی نظام کا سرنامہ اور اس کی قوتِ محرّکہ بنا ہوا نظر نہیں آئے گا۔