اخلاقیات کی قبر پر تبدیلی کا کتبہ
از، سرفراز سخی
گزشتہ دنوں استاد قمر جلالوی کے شاگرد فنا بلند شہری کی غزل راحت فتح علی خان کی آواز میں جدید طرز کی موسیقی پر ایک گانے کی صورت جو 24/7 ملک بھر میں خوب بجی، وہ تھی “میرے رشکِ قمر۔” جو بیش تر تلفظ کے بگاڑ کی وجہ سے کبھی “میرے رکشے کمر” تو کبھی “میرے رشکے کمر” ہو کر سماعتوں کو خوب جھنجھوڑتی رہی۔ اور جب کسی سے “رشکِ قمر” کی معنی طلب کیے جاتے، تو اس کے پاس اس وقت سوچنے کے علاوہ، کام کے ہوتے ہوئے بھی کوئی کام نہ رہ جاتا۔
پھر یکا یک دھیمی دھیمی سی آواز پی ٹی وی کے دور سے اٹھتی جو حال میں پہنچتے پہنچتے کچھ اونچی ہو کر سننے میں آتی، تو فقرے میں اک بولتا ہوا چہرہ نظر آتا، جو یہ کہہ رہا ہوتا کہ “کھیل کا بقیہ حصّہ خبر نامے کے بعد۔”
میں اکثر اپنے دوست عدنان سے پوچھا کرتا تھا کہ اتنے مشکل الفاظ سمجھ کیسے لیتا ہے بھائی تو؟ تو وہ ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کہ جب پڑھے گا تو یہ سوال کرنا چھوڑ دے گا۔
سچ کہا کرتا تھا، پڑھنے لگا تو بجائے یہ کہنے کہ یہ الفاظ مشکل ہیں، ان الفاظ کی معنی پوچھنے کا آغاز ہوا، جس کی بدولت لغت ملی، لغت ملی تو ان الفاظ کے معنی کو جو سمجھ میں نہیں آتے تھے ڈھونڈنا شروع کیا، اور یوں معنی کی تلاش میں ان الفاظ کے مترادف، مرکبات، کسرہ اضافت سے ملاقات ہونے کے ساتھ ساتھ اسم، اسم معرفہ، اسم کیفیت سے شناسائی ہوئی، فاعل، مفعول، فعل کا پتا چلا اور یہ بھی پتا چلا کہ لفظ مذکر ہے یا مؤنث، واحد ہے یا جمع۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب سریرِ خامہ، نوائے سروش ہے
اور اسی طرح جب معنی سمجھ میں آئے تو شُعَرَاء کرام کی قدر و منزلت کو جانا، ورنہ تو مرزا اسد اللہ خاں غالب کے غیب تا مضامیں اور سریرِ خامہ تا نوائے سروش میں ہی اٹکے، یہ کہتے رہتے کہ اتنا مشکل شعر! سقراط نے کہا کہ: “میں فقط یہ جانتا ہوں، کہ میں کچھ نہیں جانتا” اور سقراط کے اس مختصر سے فقرے میں پوشیدہ وسیع خیال کا اندازہ ہمیں تب ہوتا ہے، جب ہم ایک فریفتہِ جمال کی مانند دیوانہ وار کتابوں سے اپنی عقیدت و محبت کا صدقِ دل سے اظہار کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں مدعے پر کہ جب آپ کو لفظ یا جملے میں استعمال شدہ لفظوں کی معنی ہی نہیں معلوم، تو آپ سمجھے کیا؟ اور جب سمجھے ہی نہیں تو اس کا شمار یقیناً فضولیات میں ہوا، جو کہ احساسات و جذبات سے یک سر خالی ہوتی ہے، اور یوں آپ سماعت کے ہوتے بھی گَراں گوش ہونے کا شرف پاتے ہیں، اور ایک بار انسان جب گراں گوش ہوجائے تو اس کے پاس بم پھٹے تو معلوم نہ پڑے، کہ ہوا کیا! حضرات یہ “ہوا کیا” ہی لے ڈوبتا ہے۔
اور ایسا ہی کچھ حال اس معصوم سی عوام کا دیکھنے میں آ رہا ہے، جس نے ایک دوسرے کو “پٹواری” اور “یوتھیا” جیسے القاب سے نواز کر اپنی تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ چھوڑ، فحش گوئی و مغلظات کو اپنا لیا ہے۔
عوام کی نظر میں گویا “پٹواری” اور “یوتھیا” ایک گالی ہے، اور یہ گالی بکنا ان کے لیے باعثِ فخر، جہاں ان کی بات کے مستزاد کوئی جاتا ہے، بجائے اس کی بات کو دلائل سے رد کرنے کے، “پٹواری” اور “یوتھیا” لفظ کا اول تو ایک دوسرے پر میزائل داغتے ہیں۔ اور بعد میں بڑی بُرد باری سے اپنے خُرافاتی لہجے میں دھاک بھٹانے کے غرض سے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی وہ انگریزی جو ان کے لیے نہ آتے ہوئے بھی سہل ہوگئی ہے، کے زور پر حملہ کرتے ہیں۔ پھر جہاں ان کا ذخیرۂِ زبانِ انگریزی ختم ہوتا ہے۔ یہ پڑھے لکھے رومن ہی میں وہ وہ زبانیں بولتے ہیں کہ والله مزہ آ جاتا ہے۔
مزید دیکھیے: رواجوں اور روایتوں میں لچک ہونا چاہیے
پاکستان سماج کا منظر نامہ اور وقت کا تقاضا
اور یہ دونوں جہاں دیکھتے ہیں کہ یہاں اپنی دال نہیں گلنے والی، یعنی اپنے آپ کو اس راہِ خیر میں تنِ تنہا محسوس کرتے ہیں تو ایک کم ظرف کی طرح کمنٹ کس کر اس طرح غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ، اور کہیں اگر پٹواریوں کو یوتھیا یا یوتھیوں کو پٹواری اکیلا مل جائے، تو ان کی مثال ایسے جانور کی سی ہو جاتی ہے، جو اپنی بہادری کا مظاہرہ ایک ٹولے کی صورت بھونکتے ہوئے اپنے علاقے تک ہی کرنا جانتا ہے۔
اس بات کو لے کر ہزاروں مثالیں یہاں اس طرح کی پیش کی جا سکتی ہیں، کہ جن میں ان دونوں کو فردِ مخالف و غیر سیاسی پر بھی بےتکلف اور بے دھڑک خرافاتی پھول برستاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا پر چھائے فیس بک اور ٹوئیٹر کے صارفین کے آگے کوئی مثال پیش کرنے کی حاجت ہے۔
فیس بُک پر ایک چیز پڑھنے کو ملی وہ یہ کہ:
Q: if someone from 1950s suddenly appeared today, what would be the most difficult thing to explain to them about life today?
A: I possess a device, in my pocket that is capable of accessing the entirety of information known to man. I use it to look at pictures of cats and get in arguments with stranger.
سوال: اگر کوئی شخص ۶1950 کی دھائی سےاچانک آپ کے سامنے آ جائے تو اسے سمجھانے کے لیے آج کی زندگی کی مشکل ترین بات کیا ہو گی؟
جواب: میری جیب میں ایک ایسا آلہ ہے جو کسی بھی طرح کی معلومات جو ایک فرد کو در کار ہو سکتی ہے، کی رسائی تک مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ جسے میں بلیوں کی تصاویر دیکھنے اور انجان لوگوں سے بحث مباحثہ کرنے کے واسطے زیرِ استعمال لاتا ہوں ۔
اور آج کل ایسا ہی کچھ حال اس عوام کا سوشل میڈیا پر کثرت سے دیکھنے میں آنے لگا ہے، جو آٹھوں پہر ایک دوسرے کو ہنسی خوشی بڑی تن دہی سے ذلیل و خوار کرنے میں مشغول رہنے لگی ہے۔ وہ بھی ان سیاسی لوگوں کی وجہ سے، جو ان کی دسترس سے ہی باہر ہیں۔ اگر یہی وقت یہ عوام اپنی ذات کو تسخیر کرنے میں صرف کرے تو سمجھ پائے کہ یہ ماجرا کیا ہے!
سو لوگ ہیں جو شکایات کا دفتر کھولے ہوئے ہیں، کہ آخر اتنے برسوں بعد بھی ہمیں اس حکومت سے کیا ملا، اس نے ہمیں دیا ہی کیا؟ لیکن ان سو میں سے ایک بندہ ایسا ہے جسے بڑی ذلتّوں اور خواریوں کے بعد کچھ حاصل ہوا ہے۔ تو وہ باقی کے ننانوے لوگوں کی شکایات کو غلط کہنے سے نہ تو گھبرا رہا ہے، نہ ہی کوئی خفت محسوس کر رہا ہے، اور نہ ہی وہ اپنی اس ندامت پر ذرا بھی پریشان ہے۔
اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے نوے فیصد لوگ اسی جماعت سے وابستہ ہیں جن سے “موصوف۔” اور جس دن ایسے موصوف اپنے ایک کو باقی کے ننانوے سے جوڑ دیں گے، تبدیلی آجائے گی۔
البتہ ایک تبدیلی جو آ نہیں رہی، آگئی ہے! اس کی خوشی میں ہم نے طاق پر رکھے اخلاقیات کے جنازے کو دھرنوں کا طویل سفر کروانے کے بعد بڑے آرام سے ٹھٹھول کرتے ہوئے تدفین کر کے اس پر تبدیلی کا کتبہ نسب کروا دیا ہے۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.