ایک دریا کی موت
عبدالرؤف
اگر آپ کو دوبارہ زندگی ملے تو آپ کس ملک میں پیدا ہونا پسند کریں گے؟ دنیا میں کرائے گئے اس سروے کے نتائج بہت ہی دلچسپ ہیں۔ دنیا میں جس ملک کے بارے میں لوگوں نے رائے دی کہ وہ وہاں رہنا پسند کریں گے اس میں پہلا نمبر سوئٹزر لینڈ کا ہے۔ جھیلوں، وادیوں اور خوبصورت پھولوں کی سرزمین سوئٹزر لینڈ ، اس کا زیادہ تر حصہ جھیل جنیواکے کنارے آباد ہے۔ جنیوا شہر بھی اس جھیل کے کنارے ہے۔ اس جھیل کا صاف شفاف پانی جنیوا کے علاوہ لوزان، وی وے، گلاں جیسی خوبصورت بستیوں سے بھی گزرتا ہے۔ جھیل میں آلودگی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اندر فیکٹریوں کا بغیر ٹریٹمنٹ کیا ہوا پانی گرتا ہے ۔ اسی لیے اس کے کنارے پرندے نظر آتے ہیں۔ اس کے اندر جاندار صحت مند مچھلیوں کا رہن سہن ہے، کناروں پر خوشبوؤں کے ڈیرے ہیں اور بستیاں آباد ہیں، ہر طرف زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔
کیا ہم ایسی ہی بات لاہور کے قریب واقع دریائے راوی کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں صحت مند مچھلیوں کا ڈیرہ ہے؟ کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ راوی کے کنارے پرندے چہچہاتے ہیں؟ کیا اس کے اندر زندگی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہے؟ کیا یہاں کنارے پر پھول کھلتے ہیں؟ کیا یہاں خوشبوؤں کے ڈیرے ہیں؟ کیا یہاں زندگی ہے؟ افسوس صد افسوس کہ ایسی کوئی چیز ہمیں اب یہاں نہیں ملتی۔
پنجاب کے 5 بڑے دریاؤں میں سے ایک راوی ہے اور شہر لاہور کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے لاہور کے قریب کے حصہ کو لاہور دریا بھی کہتے رہے ہیں۔ یہ دریا دو ملکوں انڈیا اور پاکستان کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس دریا کا تاریخی نام ’’اراوتی‘‘ اور ’’پروشنی‘‘ ہے۔ دس بڑے راجاؤں کی جنگ نے جو اس کے کنارے لڑی گئی نے اسے زمانہ قدیم میں بھی تاریخی مقام دے رکھا تھا۔ اس دریا نے راجاؤں کے علاوہ مغل بادشاہوں کو بھی اتنا متاثر کیا ہے کہ انہوں نے اس کی گزر گاہ کے قریب بے شمار باغ بنوائے۔
محبت کرنے والے مغل بادشاہ اور ان کی ملکہ یعنی جہانگیر اور نور جہاں کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اپنے مقبروں کے لیے اس کے کناروں کو چنا۔ یہ دریا اپنی زرخیزی کے لیے ہمیشہ سے مشہور رہا ہے۔ ا س کے کنارے باغات، سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے لیے ہمیشہ سے بہترین ثابت ہوئے ہیں لیکن اب ہمارے حکمرانوں اور صنعتکاروں اور وڈیروں کے لالچ، طمع، ناعاقبت اندیشی نے اس دریا کے پانی کو زہر میں تبدیل کر دیا ہے۔
اس کے کنارے پھل پھول اب بھی اُگتے ہیں لیکن جتنا زہر اس دریا کے پانی میں موجود ہے اس سے پکے ہوئے پھل پھول کھانا موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ اس کے پانی سے سیراب ہونے والی فصلوں کا بھی یہی حال ہے۔ ہم نے نہ صرف یہ کہ اس دریا کو موت کا شکار بنایا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس کے پانی کو اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے زہر ناک کر دیا ہے۔ یہ موت صرف اس دریا کی موت نہیں ہے یہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک خطرناک پیغام ہے۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کے بقول فیکٹریوں کے بغیر ٹریٹمنٹ کے اس کے اندر گرنے والا پانی اور گھروں کے سیوریج نے اس دریا کے پانی میں Pb اور Cu-CD خطرناک کیمیائی مادے،میٹل اور کاپر کے ٹاکسک مادے شامل کر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ فصلوں میں ڈالے جانے والے کیمیائی مادے بھی راوی کے پانی میں شامل ہو رہے ہیں۔
یہ تمام زہر پھر واپس فصلوں میں اور زیر زمین موجود پانی کے اندر شامل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح سے 1500 ٹن کے قریب کوڑا کرکٹ روز راوی کے اندر پھینکا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی حرکات کے بعد کیا ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ ہم اچھی اور صحت مند زندگی گزاریں؟ کیا ہم اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ صحت مند مستقبل کی امید کر سکتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں میں ’’آلو انڈے‘‘ گانے والے علی آفتاب کا ایک خط یہاں نقل کر رہا ہوں جو انہوں نے اس حوالے سے تحریر کیا ہے۔
میں آپ کو دریاؤں کی اہمیت پہ نوٹ لکھ کر بور نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ سے ہی سنتے آئے ہیں کہ کیسے آبادیاں بنتی ہیں۔ لاہور راوی کی وجہ سے بنا اور آج ہم جس شہر میں رہتے ہیں یہ اسی وجہ سے شہروں کا شہر کہلوایا۔ مرہون منت:دریائے راوی۔ ورنہ تو لاہور ایک دور میں ملتان شہر کا ایک قصبہ تھا۔ سندھ طاس معاہدہ ایک طرف اور دونوں ممالک کا گندگی کا ناقص نظام بھی ایک طرف، میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہما چل پردیش سے لے کر چناب تک 894 کلومیٹر لمبے دریا میں سب سے زیادہ غلاظت 72 کلومیٹر کے اس حصے میں کیوں پائی جاتی ہے جو لاہور سے ہیڈ بلو کی کے درمیان ہے؟
کیا اس کی وجہ دو کروڑ کا یہ شہر ہے جو اپنی تمام تر میونسپل گندگی کا اخراج راوی میں کرتا ہے؟ یا 1200 سے 1400 وہ انڈسٹریل یونٹ ہیں جو بالکل کسی ٹریٹمنٹ کے بغیر اپنا سارا waste راوی میں بہا دیتے ہیں؟ پینے کے صاف پانی کا نہ ملنا تو ایک مسئلہ ہے۔ یہی waste ٹریٹمنٹ کے بغیر اپنا سارا پانی ہیڈ بلو کی سے فصلوں کو پانی دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زیر استعمال تمام سبزیاں بھی دراصل زہریلی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسپتالوں میں ایڈمٹ 20 سے 40 فیصد پاکستانی، گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
سستی روٹی اور بس کے سفر کی مد میں اربوں روپے کی سبسڈی دینے والی اس حکومت کو کیا یہ اندازہ نہیں ہے کہ اگر صاف پانی مہیا ہو تو اسپتال بھی کم بنانے پڑیں گے اور دوائیوں کی مد میں رقم بھی کم خرچ ہوگی۔ اس سلسلے میں ایک پٹیشن بھی دائر ہے جس میں کمیشن نے تجویز کیا ہے کہ treatment کے لیے پروجیکٹ لگایا جائے جس کے پائلٹ کا ایک منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس کی لاگت صرف 45 ملین روپے ہے۔ کیا یہ بھی صرف ایک تجویز ہی رہ جائے گی یا اس پر کبھی عمل بھی ہوگا؟ مچھلیوں کی 90 فیصد اقسام ناپید ہونے کی وجہ بھی دریائے راوی ہے یعنی راوی کے آلودہ پانی کی وجہ سے یہ اقسام ناپید ہو چکی ہیں اور صرف لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے ہی نہیں بلکہ لا تعداد دوسرے پاکستانی بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کیا معاشرے کے کسی حصے کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہے؟………(علی آفتاب سعید)
جس سروے کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا اس میں پاکستان کا نمبر 66 ہے جو کافی نیچے ہے۔ یعنی جو لوگ پاکستان آکر رہنا چاہیں گے ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس ناپسندیدگی کی وجوہات اور بھی بہت ہیں لیکن آلودگی اور فضا کی زہر ناکی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ درخواست خادم اعلیٰ سے یہی ہے کہ آئندہ آنے والی نسلیں شاید میٹرو بس یا ٹرین منصوبے کو یاد نہ کریں لیکن وہ یہ نہیں بھولیں گی کہ خادم اعلیٰ نے اربوں روپے ان منصوبوں میں جھونک دیئے لیکن راوی کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ