پاپولر کلچر، گلیمر کی سیمیاٹکس semiotics اور سیاست

Syed Kashif Raza

پاپولر کلچر، گلیمر کی سیمیاٹکس semiotics اور سیاست

از، سید کاشف رضا 

دنیا بھر میں ایسی نو جوان نسل تیار ہو رہی ہے جس نے گلیمر کو سیاسی نظریے کا نعم البدل سمجھ لیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ہی افراد کے جذبات سے فائدہ اٹھا کر قبولیت پسندی، populism، اور مجمع باز رہنماء، populist leaders، فروغ پا رہے ہیں۔ سیاسی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والے نو جوان جب کسی گلیمرائزڈ شخصیت کو تبدیلی کا عَلَم اٹھائے دیکھتے ہیں تو اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ phenomenon  پوری دنیا میں جمہوریت کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔

دنیا میں ہر پیشے کے لیے اس پیشے کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے، لیکن سیاست کے لیے گلیمر کے میدان کے ایسے افراد اوپر آنے لگے ہیں جو سیاسی لحاظ سے غیر پیشہ ور ہیں۔ ان غیر پیشہ ور،نا پختہ و خام، immature اور کھلنڈرے amateur سیاست دانوں نے پیشہ ور سیاست کو کم اَز کم نا پسندہ کام، یا  پھر گالی بنا دیا ہے۔


دیگر متعلقہ تحاریر:

پاکستانی معاشرہ میں پاپولر کلچر کی بحث  از، آصف علی

جینا ہے کہ مرنا ہے اک بار ٹھہر جائے از، ڈاکٹر صولت ناگی

نجی و عوامی زندگی اور آج کل کی صحافت  از، خشونت سنگھ


گلیمر میں مناظر اور visuals کی اہمیت کُلیدی ہے۔ کلچر کے لیے گلیمر کی semiotics کی اہمیت روز بَہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ تصویریں اور مناظر جو کلچر کی کسی رَگ کو چھیڑ دیں ان کا مطالَعہ سیمیاٹکس کے تحت کیا جاتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس کے فلسفیوں رولاں بارتھ، ژاک دریدا، ژولیا کرستیوا، بَل کہ، ہمارے محبوب ناول نگار امبرٹو اِیکو، Umberto Eco نے بھی ثقافت کے لیے تصویروں اور مناظر کے معنی پر بہت کام کیا لیکن ہمارے ہاں کے سیاسی مفکرین شاید ان فلسفیوں کو نرے فلسفی ہی سمجھے بیٹھے ہیں۔

گلیمر کی اس سیمیاٹکس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس کے پہلو مَثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔ اس کے مَثبت پہلوؤں پر اصرار ہم تبھی کر سکیں گے جب ہم اس phenomenon کو سمجھ لیں گے۔

گلیمر کی سیمیاٹکس کو پہلے انقلابیوں نے ہی استعمال کیا تھا اور لینن اور چے گویرا کی تصویریں پاپولر کلچر کا حصہ بن کر حقیقی تبدیلی کی جد و جہد میں کام آئی تھیں۔ پاکستان میں حالیہ طلبہ تحریک سے کچھ روز پہلے لاہور کے فیض میلے میں عروج اورنگ زیب کی نعرے لگاتے ہوئے وڈیو اور تصویر وائرل ہوئی جو گلیمر کی سیمیاٹکس کا ہی ایک انداز ہے۔

طلبہ مارچ میں ڈھول کی تھاپ، موسیقی اور منفرد نعرے بازی طلبہ میں سیاسی دل چسپی پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ چِلّی کے معروف انقلابی شاعر اور فوک گلُو کار وکٹر ہارا یاد آتے ہیں جنھیں چلی میں جنرل پنوشے کی فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی موت کے بعد ان کی برطانوی بیوی، رقاص اور ایکٹوسٹ جون ہارا نے ان کی یاد کو زندہ و تابندہ رکھا۔

About سیّد کاشف رضا 27 Articles
سید کاشف رضا شاعر، ادیب، ناول نگار اور مترجم ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’محبت کا محلِ وقوع‘، اور ’ممنوع موسموں کی کتاب‘ کے نام سے اشاعتی ادارے ’شہر زاد‘ کے زیرِ اہتمام شائع ہو چکے ہیں۔ نوم چومسکی کے تراجم پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’دہشت گردی کی ثقافت‘، اور ’گیارہ ستمبر‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان پر محمد حنیف کی انگریزی کتاب کے اردو ترجمے میں بھی شریک رہے ہیں جو ’غائبستان میں بلوچ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ سید کاشف رضا نے شاعری کے علاوہ سفری نان فکشن، مضامین اور کالم بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے سفری نان فکشن کا مجموعہ ’دیدم استنبول ‘ کے نام سے زیرِ ترتیب ہے۔ وہ بورخیس کی کہانیوں اور میلان کنڈیرا کے ناول ’دی جوک‘ کے ترجمے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا ناول 'چار درویش اور ایک کچھوا' کئی قاریانہ اور ناقدانہ سطحوں پر تحسین سمیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ محمد حنیف کے ناول کا اردو ترجمہ، 'پھٹتے آموں کا ایک کیس' بھی شائع ہو چکا ہے۔