ریاست اور پوسٹ ماڈرن دنیا
جاوید قاضی
جب ولادیمیر ایلیچ لینن ’’ریاست اور انقلاب‘‘ تحریر کر رہے تھے اس کے پس پردہ کارل مارکس کا وہ قول تھا کہ ’’بنیادی طور پر سب سے بڑی برائی خود ریاست ہے‘‘ مارکس کہتے تھے کہ جب اشتراکی انقلاب اپنی بلوغت کو پہنچے تو وہاں سے ریاست کے تحلیل ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور اس طرح پوری دنیا بغیر ریاستی سرحدوں کے، اور اونچ نیچ کے تناؤ سے، جائیداد کے تنازعوں سے سکہ رائج الوقت اور کرنسی نوٹوں کی ریل پیل سے برتر ہوجائے گی، جب فرد فرد کا عکس ہوگا۔
ساحر لدھیانوی کے ان شعروں میں یہی بات کچھ یوں عیاں ہوتی ہے۔
انسانوں کی قیمت جب جھوٹے
سکوں میں نہ تولی جائے گی
جب امبر جھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
یہ ساری باتیں میرے ذہن میں اس وقت اجاگر ہوئیں جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کے پوڈیم پر کھڑے دنیا سے مخاطب تھے۔ یہ تھے دنیا کی مہذب تریں ریاست کے صدر۔ دنیا کے امیر ترین بھی اور طاقتور بھی۔ اس گدی پر تقریبا پون صدی کے قریب امریکا کا دنیا پر راج رہا ہے اور لگ بھگ 45 سال تک سوویت یونین نے سرد جنگ کے زمانے میں، طاقتور ہونے کی سبب سے امریکا کی برابری کی ہے۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب انسان غاروں سے نکل کر، اسٹون ایج اور آئرن ایج سے نکل کر اس نے کھیتی باڑی کی۔ یا یوں کہیے کہ گندم کے دانے نے انسان کو وحشی سے انسان بنانے میں کردار ادا کیا۔ کیونکہ گندم کو ذخیرہ کرنا صدیوں سے چلا آرہا تھا مگر گوشت، پھل، سبزی کو کچھ دن کے اندر استعمال کرنا ہوتا ہے۔
انسان ویسے تو لاکھوں سال سے اس زمین پر وجود رکھتا ہے مگر معاشرے سے جڑا انسان شاید پچھلے دس ہزار سال سے ہی موجود ہے۔ اس کے بھی کئی ادوار گزرے قبیلہ رہن سہن، غلامی کے ادوار پھر کھیتی باڑی اور وہاں سے نکل کر صنعتی دور اور پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ، سائنسی دریافت پچھلے دو صدیوں سے دنیا میں انسان تقریبا سات کروڑ سے لے کر سات ارب تک پہنچا ہے۔ یعنی 20 گنا زیادہ انسان کی آبادی اور دھرتی وہی۔ 2050ء تک یہ انسانی آبادی بڑھ کر ساڑھے آٹھ ارب تک پہنچ جائے گی۔ یہ تیزی سے بدلتا ہوا انسان اور بڑھتی ہوئی آبادی، مگر آج بھی ان ریاستوں پر راج کرنے والے لیڈران کے لبوں میں وہی جنونیت ہے جو تاتاری قوم، ہٹلر اور اسٹالن کے اندر تھی۔ مگر خیال Idea)) تھا کہ ان ساری وحشتوں کے باوجود اور اس کی پرواہ کیے بغیر، اپنی ارتقائی منزلوں کو طے کر رہا تھا۔
اور وہ تھا انسان کو ’’آزاد‘‘ کرنے کا خیال، اس کی عزت، آبرو، اس کی سوچ کی پاسداری اور بلندی کا خیال ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا خیال، حق و صداقت کے لیے جینے اور مرنے کا خیال، یہ وہ خیال تھا جس نے یسوع کو صلیب پر چڑھایا۔ جس کی تاکید حضور پاکﷺ نے اپنے آخری خطبے میں کی یعنی انسانیت کی عظمت کا سبق۔ یہ وہ کڑیاں تھیں جس نے میگنا کارٹا کو جنم دیا۔ رومی کیا تھے؟ ایک خیال ہی تو تھے۔ بغداد میں جنید کے شاگرد ’’منصور حلاج‘‘ حق و صداقت کے لیے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ جب جنونیت سے نکلا ہوا انسان، ظلم اور بربریت سے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو یرغمال بنانے کے لیے ان پر حملہ آور تھا، تو عطار، جامی، سعدی خیال کو اور آزاد کرنے میں مصروف عمل تھے۔ سقراط خود ان خیالوں کی تحریک کی بنیاد تھے۔ یہ تحریک بڑھتی گئی، اپنے عہد سے اگلے عہد سے اگلے عہد تک چلتی گئی۔ جب نپولین، واٹرلو کو زیر کرنے کے لیے بضد تھا اس وقت جرمن فلسفہ اپنے عروج پر تھا۔ اور اسی ادوار کے اردگرد روسو عمرانی معاہدے جیسے عظیم تخیل کی تخلیق کر رہا تھا۔
کارل مارکس کون تھے؟ فقط انسان! آپ نے باقی تمام لباس اپنے جسم سے اتار دیے۔ کارل مارکس کی ٹریجڈی یہ تھی کہ ان کے نظریاتی شاگرد جب روس پر قبضہ جمانے کے لیے نکلے تو ان کے اندر قدیم زمانوں کی جنونیت ابھی باقی تھی۔ ان کمیونسٹوں سے بالآخر اسٹالن جیسے جنونی شخص جنم لیا۔ اور اسی طرح کارل مارکس کی بین الاقوامی کمیونسٹ تحریک یرغمال ہو گئی۔ شاید وحشی جبلتوں سے نکلے ہوئے ان کمیونسٹوں میں سے لینن سے بہتر ٹرائٹسکائی تھے جنہوں نے لینن کے اشتراکی ریاست کے بننے کے خیال کو رد کیا اور انقلاب لاتے ہوئے دنیا میں اشتراکیت کی بات کی۔ (ٹرائٹسکائی اور اسامہ بن لادن کے modus operandi میں بہت مماثلت تھی یہ بات اس بحث سے ہٹ کر ہے) عمرانی معاہدہ جو روسو نے تحریر کیا وہ امریکا کے آئین کا لاشعور بنا۔ اور اس طرح انسان کی فلاح و بہبود اور انسانی حقوق کا تحفظ ریاست کی بنیاد ٹھہرا۔ Capitalism کی بنیاد لالچ اور خود غرضی پر مبنی تھی۔
بڑی اقوام کا چھوٹی اقوام کو غلام بنانا بھی ایک طویل داستان ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔ طاقتور ریاستیں حملہ آور ہوتی رہیں اور چھوٹی ریاستیں ٹوٹتی رہیں۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، نو آبادیاتی نظام، جدید نو آبادیاتی نظام! برطانیہ میں اس وقت بھی جمہوریت تھی جب ہم اس کی کالونی ہوا کرتے تھے۔ آج جب ٹرمپ نارتھ کوریا کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دے رہا تھا مجھے ہلاکو خان اور چنگیز خان تصور میں آئے۔ مجھے امریکا کی ریاست اتنی گھناؤنی نہ نظر آئی جتنا ہٹلر کے زمانے میں جرمنی ہوا کرتا تھا۔
ایک طرف ریاستیں تھیں اور دوسری طرف گلوبلائزیشن تھی۔ یہ تھا سرد جنگ میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کہ بعد کا زمانہ ایک طرف مہذب ریاستیں بھی تھیں انسانی حقوق، فلاح و بہبود کو آئین کا بنیاد بنانے والی ریاستیں جو طاقت بن کر ابھریں تو دوسرے طرف ان کے ہاتھوں پہ کٹھ پتلیوں والی ریاستیں بھی تھیں جہاں نہ انسانی حقوق تھے نہ فلاح و بہبود کا تصور۔ مشرق وسطیٰ میں ایسی کئی ریاستیں آج بھی موجود ہیں۔
ٹرمپ کی 42 منٹ کی تقریر میں21 مرتبہ جو لفظ استعمال ہوا وہ sovereignty تھا۔ خود مختاری، مطلب ٰقوموں کی خودمختاری، ریاست کی خودمختاری۔ وہ اس وقت اقوام متحدہ کے پوڈیم سے خودمختار ریاستوں کے اجلاس سے مخاطب تھا۔ مگر اس کا زاویۂ خودمختاری امریکا کی آنکھ سے تھا۔ اسے کچھ بھی علم نہیں کے 7 ارب آبادی کی اس دنیا میں لگ بھگ ساڑھے تین ارب لوگ غربت کی لکیروں کے نیچے رہ رہے ہیں۔ اسی یہ بھی علم نہیں کہ کھانے کہ اشیاء جتنی امریکا ضائع کرتا ہے اتنا کوئی ملک نہیں کرتا۔ دنیا میں اب بھی کھانے کی اشیاء وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں کہ دنیا کی تمام آبادی کے لیے کافی ہیں۔
اقوام متحدہ کے FOA کے مطابق دنیا کی پونے ارب آباد ی شدید غدائی قلت کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی آپ کے سامنے ہے۔ یہ موصوف پیرس protocol معاہدے سے لاتعلق ہوکہ بیٹھ گئے ہیں۔ آج امریکا کے ساحلوں پر Harvey اور Irma جسے سمندری طوفان جو تباہیاں مچا رہے ہیں اس کی مثال صدیوں میں نہیں ملتی۔ اور ٹرمپ ہیں کہ جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں۔
جارج بش نے امریکا کی طاقت منوانے کے لیے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کا انتخاب کیا، پہلے افغانستان پھر عراق پر حملہ کیا۔ اور اب ٹرمپ ایک ایسے جنونی سے ٹکرانے کہ بات کر رہا ہے جس کے پاس نیو کلیئر ہتھیار ہیں۔ وہ اس ملک کی ڈھائی کروڑ آبادی کو ایک جھٹکے سے ختم کرنے کہ دھمکی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم دے رہا ہے۔
یوں لگتا ہے غاروں سے نکلا آدمی اب بھی وہی وحشی ہے۔ کتنے گھناؤنے ہوتے ہیں ریاستوں کے مفادات وہ مفادات جو وہ خود اپنے لوگوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ جرمنی کو کسی اور نے نہیں ہٹلر کی سوچ جو جرمن قوم نے پاپولر انداز میں اپنائی اس نے ختم کیا۔ آج امریکا کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ اب اس کے پونے صدی کا ورلڈ پاور ختم ہورہا ہے۔ ٹرمپ کا جیت کر امریکا کا صدر بننا اس سوچ کی عکاسی کررہا ہے کہ اس کے ارد گرد عسکری سوچ کہ لوگوں کا گھیرا ہے۔ وہ فوجی بجٹ بے تحاشہ اضافہ کرنے جارہا ہے۔ مگر خیال ہے کہ وہ اپنی راہیں متعین کرتا جارہا ہے۔
ریاستوں کی سرحدیں اگر ٹوٹ نہیں رہیں تو کمزور ضرور ہو رہی ہیں۔ دنیا میں گلوبلائزیشن ہو چکی ہے، ہم ایک دوسرے سے سیکنڈز کے فاصلے پر ہیں۔ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اسمارٹ فون، فیس بک، غرض کہ تعلیم ہمہ گیر ہوگئی ہے۔ ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں۔ اب دنیا کو بھرپور گلوبل حکومت کی ضرورت ہے۔ جتنا بین الاقوامی قانون جامع اور وسیع اب ہونے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ دنیا پوسٹ ماڈرن طرز پر ریاست کے خدوخال چاہتی ہے اور ہم اگر نہیں دے پائے تو ٹکراؤ ناگزیر ہے۔
ٹرمپ امریکن قوم پرست ہیں، تو ہٹلر کیا تھے؟ وہ بھی جرمن قوم پرست تھے۔ مگر پوسٹ ماڈرن دنیا کا سب سے بڑا حریف یہی قوم پرستی ہے۔ وہ بیانیہ ہے جس سے دنیا کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ وہ اپنی سمت بنائے گا وہ اپنی راہیں متعین کریگا۔ دنیا نے پھر سے مہذب ریاستوں کے پیمانے بنانے ہیں۔ اور اب نارتھ کوریا جیسی rogue state اور آئین کے بغیر والی ریاست، آمریتوں اور بادشاہت پر مبنی ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گی۔