پوسٹ ماڈرن ازم کا چیلنج اور میڈیا
از، ڈاکٹر شاہد صدیقی
پوسٹ مارڈن ازم کا چیلنج اور میڈیا کے موضوع پر ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں ملک کی مختلف جامعات کے طلبہ، اساتذہ اور محققین شریک تھے۔ ملک کے ممتاز صحافیوں محترم سجاد میر صاحب، محترم فتح محمد ملک صاحب، محترم مجاہد منصوری صاحب، محترم خورشید ندیم صاحب، محترم وجاہت مسعود صاحب اور محترم شفیق جالندھری صاحب نے اپنی گفتگو میں اہم نکات اٹھائے۔ یہ ایک سنجیدہ علمی محفل تھی جہاں مختلف سیشنز میں تحقیقی مقالے پڑھے گئے۔ کانفرنس میں شرکا کوخوش آمدید کہنے کی خوشگوار ذمہ داری میری تھی۔ کانفرنس کے موضوع پر میں ںے جو مختصر گفتگوکی پیشِ خدمت ہے۔
پوسٹ ماڈرن ازم بیسویں صدی کی ایک اہم تحریک ہے جو ماڈرن ازم کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی۔ اس تحریک کے اثرات ادب، تنقید، فلسفہ، موسیقی، آرٹس اور ابلاغِ عامہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس تحریک نے ہر شے کے وجود خاص طور پر grand narratives کو چیلنج کیا۔ پوسٹ مارڈن ازم کا بنیادی نعرہ کسی بھی چیز کے حتمی پن سے انکار تھا اسی لیے اس میں بہت سی طے شدہ سچائیوں کوچیلنج کیا گیا کیونکہ پوسٹ مارڈن ازم میں سچائی کا تصور نہ تو جامد تھا، نہ ہی طے شدہ۔
پوسٹ ماڈرن ازم میں سچائی کے ایک سے زیادہ versions ہو سکتے ہیں کیونکہ پوسٹ ماڈرن ازم میں سچائی ایک معاشرتی social construct ہے جس کی تشکیل میں سماجی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سماجی اداروں میں خاندان، تعلیمی ادارے اور میڈیا شامل ہیں۔ یوں پوسٹ مارڈن ازم میں میڈیا ایک مرکزی کردار اختیارکر گیا ہے۔
اسی طرح پوسٹ مارڈن ازم میں زبان کا پرانا تصور بھی بدل گیا ہے اور لفظوں کے معنی بھی fluid ہو گئے ہیں۔ زبان جوکبھی محض خیالات، تصورات اور محسوسات کی ترسیل کا ایک آلہ (tool) گردانی جاتی تھی اب وہ ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آئی ہے جو سچائی کی تشکیل (construction of reality) میں محرک ہوتی ہے۔ یوں زبان کا سیاسی کردار کھل کر سامنے آیا ہے جس کا تعلق براہ راست طاقت کے ساتھ ہے۔
زبان اور طاقت کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لئے ہمیں معروف اطالوی دانشور گرامچی کی کتاب Prison Notebook سے رجوع کرنا ہو گا، جس میں پہلی بار بالادستی (hegemony) کے موضوع پر بحث کی گئی۔
گرامچی کے مطابق بالادستی حاصل کرنے کے دو اہم طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ: جس میں پولیٹیکل سوسائٹی طاقت کا استعمال کرتی ہے اور دوسرا سول سوسائٹی کا ذریعہ، جس میں طاقت کا استعمال نہیں ہوتا اور تعلیم، ادب، زبان اور ثقافت سے دوسروں کے ذہنوں کو مسخر کرکے انہیں زیر نگین لایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک بالادستی حاصل کرنے کا جبری طریقہ ہے اور دوسرا discourse کا طریقہ۔
گرامچی کے بقول ڈسکورس کا طریقہ زیادہ طاقتور اور مؤثر ہے جس میں ذہنوں کو غیر محسوس طریقے سے مرعوب کیا جاتا ہے اور مسخر ہونے والا گروپ اپنی رضا و رغبت سے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ بالادستی کے عمل کی معراج ہے جسے گرامچی spontaneous consent کا نام دیتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ تمام سماجی اداروں میں زبان کا اہم کردار ہے۔ خاص کر میڈیا میں۔ یہ کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے جہاں نہ صرف سچائیوں کو دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے بلکہ سچائیوں کو تخلیق (construct) کیا جاتا ہے۔ یوں میڈیا ایک اہم طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جو شناختوں کی تشکیل (construction of identities) پر قادر ہے۔
شناخت (identity) بھی اور چیزوں کی طرح پوسٹ ماڈرن دور میں ایک غیر جامد (fluid) تصور بن گئی۔ میڈیا کسی شناخت کو عظمتوں کی بلندیوں پر بھی پہنچا سکتا ہے اور کسی شناخت کو بدنما بھی بنا سکتا ہے۔ یوں کسی زمانے میں اگر پیداواری ذرا ئع (sources of production) اہم خیال کیے جاتے تھے تو اب sources of production of knowledge زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ اگر علم کے یہ ذرائع کسی گروپ یا ملک کے قبضے میں ہیں تو طاقت کا سرچشمہ اسی کے پاس ہو گا۔
معروف مفکر ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب Orientalism میں تفصیل سے بحث کی ہے کہ کیسے مغرب (Occident) نے مشرق (Orient) کی شناخت اپنی مرضی سے تشکیل دی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے مغربی مصنفین کے ادب پاروں کی متعدد مثالوں سے واضح کیا ہے کہ کس طرح مستشرقین (Orientalists) نے مشرق کی شناخت کو تو پست اور بے وقعت بنایا اور اپنی یعنی مغرب کی شناخت کو پرشکوہ بنا دیا۔ یہ رویہ ایڈورڈ سعید کے بقول positional superiority سے جنم لیتا ہے۔
میڈیاکے حوالے سے ایڈورڈ سعید نے اس کے سیاسی کردار کو واضح کیا اور politics of representation پر روشنی ڈالی۔ اس کے مطابق زور آور گروہ اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مرضی اور اپنی عصبیتوں کے ہمراہ دوسروں کا چہرہ بناتے اور دکھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایڈورڈ سعید کی کتاب Covering Islam اہم ہے۔
فرانسیسی دانشور فوکو (Michel Foucault) کے مطابق طاقت اورعلم کا مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔ طاقت اپنے مفاد کے مطابق ایک خاص طرح کے بیانیے کو تشکیل دیتی ہے، اس کی بھرپور اشاعت کرتی ہے اور اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ یہ تشکیل کردہ بیانیہ ایک خاص طرح کی معاشرتی سچائی (social truth) کو جنم دیتا ہے اور یہ معاشرتی سچائی طاقت اور اس کے تمام تر اقدامات کو جواز فراہم کرتی ہے۔
عہدِ جدید میں نوم چومسکی نے میڈیا کے سیاسی پہلو کو اپنی تحریروں کا مرکز بنایا اور گرامچی کی اصطلاح spontaneous consent کے مقابل manufacturing of consent کی اصطلاح روشناس کرائی۔ یہ میڈیا کے اس طاقتور پہلو کی طرف اشارہ ہے جس میں میڈیا لوگوں کو اپنی مرضی کی چیزیں دکھاتا ہے اور اپنے طے شدہ ایجنڈے پر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
پوسٹ مارڈن دور میں میڈیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی قیود توڑ کر سوشل میڈیا کے پُرشور سمندر میں اُتر گیا ہے۔ اس سمندر کی رفتار اور شور اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے ممتاز کرتا ہے۔ یوں سوشل میڈیا معاشرتی سچائیوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ انہیں تند و تیز سیلابی ریلے کی شکل میں پھیلانے پر قادر ہے۔
میڈیا شناخت سازی construction of identities میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میڈیا کی یہ طاقت اس بات کی متقاضی ہے کہ میڈیا اپنی ذمہ داریوں کا تعین خود کرے۔ بیرونی پابندیاں کبھی اتنی مؤثر نہیں ہو سکیں جتنا خود احتسابی کا عمل۔
پوسٹ مارڈن ازم کے چیلنج نے میڈیا سے وابستہ افراد کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک صحافت سے وابستہ ہونے والے نوجوان صحافیوں کو ہونا چاہیے کہ وہ سچائیوں کی تشکیل کے سرچشمے سے وابستہ ہیں، ان کے پاس وہ رنگ ہیں جس سے کسی شناخت کوکوئی رنگ بھی دیا جا سکتا ہے۔