امارت اور غربت
از، ڈاکٹر لال خان
آج اِس کرہ ارض پر امارت اور غربت کے درمیان خلیج جس قدر وسیع ہو چکی ہے اتنی انسانی تاریخ میں پہلے شاید کبھی نہیں تھی۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے عالمی خیراتی ادارے ‘آکسفیم‘ نے سوئٹزرلینڈ کے پرفضا مقام ‘ڈیووس‘ میں منعقد ہونے والے دنیا بھر کے امیروں کے سالانہ اجلاس (ورلڈ اکنامک فورم) میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کی ہے، جس کے مطابق 2017ء میں پیدا ہونے والی دولت کا 82 فیصد حصہ صرف ایک فیصد امیر ترین افراد کے تصرف میں آیا جبکہ غریب ترین 50 فیصد آبادی کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔
ایسے اعداد و شمار اب زیادہ تواتر سے آنے لگے ہیں۔ آکسفیم جیسے جو ادارے مہنگی تحقیقات سے یہ اعداد و شمار مرتب کرتے ہیں وہ خود انہی حکمرانوں کی دولت سے چلتے ہیں جس کا ارتکاز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایسی رپورٹوں کو مرتب کرنے اور پھر ایسے پرتعیش اجلاسوں میں پیش کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکمران اپنے نظام کے مضمرات سے آگاہ رہیں اور اس کے خلاف ابھرنے والی ممکنہ بغاوتوں کو کچلنے کا لائحہ عمل مرتب کر سکیں۔
ڈیووس میں منعقد ہونے والے ‘ورلڈ اکنامک فورم‘کے اجلاسوںمیں دنیا بھر سے حکمران طبقات کے نمائندوں، سامراجی پالیسی سازوں اور مستقبل میں ممکنہ طور پر اقتدار میں آنے والے افراد کو بلایا جاتا ہے تاکہ سرمایہ داری کے بحرانوں اور اس کو لاحق خطرات پر غور کیا جا سکے۔ اِس اجلاس میں شریک ہونے کی فیس 52 ہزار امریکی ڈالر ہے جبکہ دوسرے اخراجات شامل کئے جائیں تو کم و بیش ایک کروڑ پاکستانی روپے صرف ہوتے ہیں۔
اِس بار بھی وہاں بہت سے بحث مباحثے ہوئے۔ ”فیک نیوز‘‘ اور میڈیا کے بحران سے لے کر جنگوں، غربت اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نظام کو لاحق خطرات تک کے بارے میں سب نے اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ کوئی حتمی اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا لیکن ایک عمومی حکمت عملی سب اپنے ممالک میں کارروائیوں کے لیے واپس لے گئے۔ لیکن جس نظام کو بچانے کے لیے یہ ساری وارداتیں جاری ہیں‘ انتہاؤں کو چھوتی معاشی نا ہمواری، غربت اور ذلت اِسی کی ناگزیر پیداوار ہیں۔
حکمران طبقات کو محنت کشوں کی کسی براہِ راست بغاوت کا سامنا نہ ہو تو بھی وہ اپنے نظام کو لاحق خطرات کو محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے سنجیدہ ماہرین اپنے تجربات سے انہیں یہ باور کروا رہے ہوتے ہیں کہ بظاہر سکوت کی کوکھ میں بھی جو تضادات پک رہے ہیں‘ وہ پھٹ کر ان کی حاکمیت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین لوگ سب سے زیادہ خیرات بھی دیتے ہیں۔ بل گیٹس اور وارن بفٹ لمبے عرصے سے دنیا کے امیر ترین اور ”مخیر‘‘ حضرات میں شمار ہورہے ہیں‘ لیکن ان کی دولت کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
یہ لوگ نہ کسی مذہبی رجحان کی وجہ سے خیرات دیتے ہیں نہ ہی انسانی ہمدردی کے کسی جذبے کے تحت۔ بلکہ اِس عمل سے دنیا بھر میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ کھرب پتی سرمایہ دار بھی کتنے حساس، درد مند اور اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں دنیا کے کچھ حصوں میں خیرات یا ‘چیریٹی‘ ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکی ہے جسے ٹیکس چوری سے لے کر ‘پی آر‘ بہتر بنانے اور دوسرے مالیاتی و سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف خیرات لینے والوں کی خودی گھائل ہو جاتی ہے۔ ان کا احساس اور بھی مجروح اور محکوم ہونے لگتا ہے۔ ہر ملک کے حکمران اِس دھندے میں ملوث ہیں۔ یہاں بھی خیرات کو کبھی مذہب کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، کبھی نیک نامی خریدنے اور ‘آخرت سنوارنے‘ کے لیے اس کا پرچار کیا جاتا ہے۔
تعلیمی نصابوں سے لے کر سیاست، ریاست اور ابلاغ کے ادارے تک اِن مخیر خواتین و حضرات کا پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ لیکن ایک طرف خیرات کی صنعت خوب فروغ پا رہی ہے تو دوسری طرف محرومی اور غربت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ خیراتوں سے بھی بھلا سماج بہتر ہو سکتے ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو دنیا میں سماجی نظام کبھی تبدیل نہ ہوتے۔ کبھی کوئی بغاوت نہ ہوتی۔ کارل مارکس نے انقلابات کو تاریخ کی ریل گاڑی کے انجن قرار دیا تھا۔ اگر یہ دیوہیکل تبدیلیاں نہ آتیں تو انسان یہاں تک پہنچ نہیں سکتا تھا اور اِس کی آزادی کی منزل واضح نہیں ہو سکتی تھی۔
آج دنیا میں اتنی پیداواری صلاحیت، اتنے وسائل اور اتنی افرادی قوت موجود ہے کہ اسے منافع خوری کی بجائے انسانی ضروریات کے مطابق پوری طرح سے بروئے کار لایا جائے تو چند مہینوں میں کرہ ارض پر سے بھوک اور محرومی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن انسان کی لاکھوں سالوں کی محنت اور کاوش سے معرض وجود میں آنے والے یہ پیداواری ذرائع سرمائے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نجی ملکیت میں انہیں چلانے کا مقصد انسانوں کی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے منافعوں کا حصول ہے۔
یہاں بڑے بڑے گودام اور دکانیں ادویات سے بھری ہوئی ہیں لیکن غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگیاں گنوا رہے ہیں۔ یہی صورتحال خوراک کی ہے۔ اگر یہ صنعتیں اپنی پوری پیداوار شروع کر دیں تو مانگ پوری ہو جائے گی لیکن شرح منافع اتنی گر جائے گی کہ کوئی سرمایہ دار سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ پورا نظام بحران کا شکار ہو جائے گا اور معاشرہ ٹوٹنے پھوٹنے لگے گا۔ لیکن اگر پیداوار کا مقصد ہی منافعوں کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل ہو تو یہ مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں مسئلہ سرمایہ داری ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ دار اگر اتنا سرمایہ لگاتے ہیں تو پھر منافع کمانا ان کا حق ہے۔ لیکن یہ سرمایہ کہاں سے آتا ہے؟ سرمایہ چوری شدہ انسانی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ دولت، یہ سرمایہ خود بخود پیداوار نہیں کر سکتا۔ یہ انسانی محنت ہے جو مردہ سرمائے میں جان ڈالتی ہے۔ مشینوں کو چلاتی ہے۔ سماج کا پہیہ گھماتی ہے۔ یہاں بتایا جاتا ہے کہ تاج محل فلاں شہنشاہ نے بنایا تھا۔ حالانکہ اُس نے ایک اینٹ بھی نہیں لگائی ہوتی۔ جیسا کہ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستون
دامنِ دہر پہ اِس رنگ کی گل کاری ہے
جس میں شامل ہے تیرے اور میرے اجداد کا خون
حکمرانوں نے محنت کشوں کی محنت کو اتنا بے توقیر اور بیگانہ کر دیا ہے کہ ہر عظیم الشان تعمیر کا نام اِس کے مالک سے منسوب ہے۔ اس کے معماروں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ آج شرح منافع میں اضافے کے لیے انسانی محنت کو روبوٹس اور دوسری جدید مشینوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ نظام ایک تضاد کا شکار ہے۔ جب انسانی محنت کو پیداوار سے بے دخل کیا جاتا ہے تو اِس پیداوار کو منڈی میں خریدنے والا بھی کوئی نہیں بچتا۔
درحقیقت یہ نظامِ سرمایہ تاریخی طور پر اتنا متروک ہو چکا ہے کہ بربادیوں کے سوا کچھ دینے سے قاصر ہے۔ ہر طرف ایک انتشار اور افرا تفری ہے۔ ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی محنت کشوں کی زندگی مشینوں سے مختلف نہیں ہے۔ انسانیت اِس نظام کے خاتمے سے ہی آسودہ اور خوشحال ہو سکتی ہے۔ یہ فریضہ کٹھن ضرور ہے، ناممکن نہیں۔
لیون ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ انسانیت ہمیشہ ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھتی ہے بلکہ جمود کے طویل ادوار بھی آتے ہیں۔ کبھی یہ رجعت اور پسپائی میں بھی دھکیلی جاتی ہے۔ لیکن ہمیشہ ایک جگہ کھڑی بھی نہیں رہ سکتی؛ تاہم اسے آگے بڑھانے والا کوئی طبقہ موجود نہ ہو تو یہ بربریت کی کھائی میںپسپا ہونے لگتی ہے۔ یہ محنت کش طبقہ آج موجود ہے جسے سرمائے سے انسانیت کی آزادی کی لڑائی لڑنی ہے۔