پاور پالٹیکس اور اصولوں کی باتیں
ڈاکٹر شاہ محمد مری
پالٹیکس (سیاست)، تخت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ پالٹیکس (سیاست)، تخت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ تاریخ انسانی میں اقتدار کے حصول کے لیے بے شمار طریقے ملتے ہیں: انقلاب، الیکشن، فوجی کودت۔۔۔۔ 1990 سے پہلے البتہ ساری سیاست (پاور پالیٹکس) پہ نظریات کا کنٹرول تھا۔
ایک طرف کمیونزم ایک ٹھوس نظریہ کے بطورسیاست میں فعال تھا۔ دوسری طرف بہت سارے ناموں نعروں کے ساتھ سرمایہ دارانہ سیاست تھی۔ مقابلہ ہی دونوں نظریوں کے درمیان تھا۔ اس لیے سیاست باقاعدہ نظریاتی ہوا کرتی تھی۔ کمیونسٹوں کی اپنی سیاسی اخلاقیات ہوتی تھی جس پہ وہ سختی سے جڑے ہوتے تھے۔
آپ کیلکولیٹ کرسکتے تھے کہ اُن کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ پتہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ فلاں فلاں کام کرسکتے ہیں، اور فلاں کام بالکل نہیں کرسکتے۔ اور پھر سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ سوشلسٹ بلاک کے اکیس ممالک کابھی دھڑن تختہ ہوگیا اور یوں تقریباً ساری دنیا سرمایہ داری کے ریوڑ میں شامل ہوگئی۔
خواہ ظاہری طور پر جو بھی نام و نعرے لگتے ہوں مگر اصل بات یہ ہے کہ ہم سارے انسان، کپٹل ازم میں جی رہے ہیں۔ نجی ملکیت کے لیے جی رہے ہیں، نجی جائیداد میں اضافے کے لیے جی رہے ہیں۔ چونکہ کپٹلزم منافع کا نظام ہے جو صرف اُسی صورت حاصل ہوتا ہے جب آپ دوسرے انسان کا استحصال کریں۔ اس لیے اس نظام میں ایک آدھ شخص ہی امیر ہوتا ہے اور بہت سے لوگ غریب ہوتے ہیں۔
سرمایہ (اور اقتدار) سے سارے انسان برابر مستفید نہیں ہوسکتے۔ بلکہ سب سے چالاک، چُست اور سفاک لوگ ہی دولت و تخت کے مالک ہوسکتے ہیں۔ اصول، ایمانداری، اورنظریہ محض ”وغیرہ وغیرہ“ بن جاتے ہیں۔ مرگِ سوویت یونین کے بعد دیدہ دلیرعالمی سرمایہ داری نے تخت تک رسائی کے باقی سارے راستے بند کردیے، ماسوائے الیکشن کے۔ اس چالاک طبقے نے یہ اب کردیا کہ طاقت، قوانین، اور پروپیگنڈہ اداروں کے ذریعے اقتدار کے حصول کے باقی سارے ذرائع کوبغاوت، غداری وغیرہ مشہور ومقبول بنا کر بند کر دیا۔ لہٰذا سارے ممالک کی ساری سیاسی پارٹیاں الیکشن کے واحد موجود راستے کو تسلیم کرتے ہوئے اُسی میں کود گئیں۔
مگر سرمایہ داری نظام اتنی بھی احمق نہیں کہ ہر کوئی للو پنجو اٹھے، الیکشن لڑے، جیتے اور تخت لے جائے۔ چنانچہ اس نے پیسہ کو الیکشن کے ساتھ مضبوطی سے نتھی کردیا۔ پیسہ ہے تو الیکشن میں خوب خوب خرچ کرو، خوب خوب مرغن دعوے خریدو، نعرے، پوسٹر،اور اشتہار خریدو، ووٹ خریدو، میر و معتبر و لیڈر خریدو، ضمیر و حمایت و جماعت خریدو، امید و توقع اور امکان خریدو…۔ جو سب سے زیادہ خریدے گا تخت اُسی کا۔
تخت خرید کر پھر اِسی تخت کے ذریعے مزید دولت خریدو، مزید شہرت خریدو، مزید اختیار خریدو،اورمزید اقتدار خریدو۔ لہٰذا ہرایک حلقہ کروڑوں کی قیمت پہ برائے فروخت ہے۔ اور اگر پورا پاکستان خریدنا ہو تو کچھ ارب روپے لاؤ تخت تمہارا۔
اب چونکہ نظریات اور اصول کی جگہ سرمایہ نے لی، اور دلوں پہ قبضہ کرنے کے بجائے جیبوں پہ قبضہ ہوگیا، اس لیے اب وہ زمانہ لد گیا کہ ”فلاں پارٹی کسی کھمبے کو بھی امیدوار کرے تو کامیاب ہوگا“۔ سرمایہ دار ممالک میں اسٹیبلشمنٹ سے پوچھنا بھی ایک ضروری شرط ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ‘ جہاں سے ساری ہواؤں کو چلنے سے قبل اپنی سمتیں بتا کرچلنے کی اجازت لینی ہوتی ہے۔
ہر ندی نالہ ایک متعین‘ اور مقدار و مقرر زیر و بم کے ساتھ ایسے بہے گا کہ اس میں سرزوری اور سرشوری نام کو نہ ہو۔ چنانچہ طبقاتی نظام کے الیکشنوں میں گل، بلبل، حسن‘ترانے، خوشبو،زلفیں اور عشاق طے شدہ رولز و قوانین کے فریم کے اندر رہیں گے۔ ابھی حال میں کوئٹہ چاغی کی قومی اسمبلی کی سیٹ پہ ضمنی انتخابات ہوئے۔ مندرجہ بالا سارے ریکوائرمنٹ پورے ہوئے تبھی ملا فضل الرحمن اور ڈاکٹر مالک والوں کا مشترکہ امیدوار جیت گیا۔ اختر مینگل اور اسفند یار کا مشترکہ امیدوار دوسر ے نمبر پر آیا۔ اورمحمود خان، آصف زرداری اور عمران خان کے امیدوار بہت ووٹوں سے ہار گئے۔
ظاہر ہے کہ یہ سارے امیدوارمزدور، کسان اور نچلے طبقے سے نہ تھے۔ اور اُن کی سیاسی پارٹیاں بے تحاشا پیسے والی ہیں۔ چونکہ نظریات کی بات کب کی فوت ہوچکی ہے۔ اس لیے ”خرید“ اور ”زرخرید“ واحد طریقہ تھا الیکشن میں حصہ لینے کا،جیتنے کا۔ ہماری سیاست میں نظریات کی غیر موجودگی کی یہ بات ہم سب کو معلوم ہے۔ گلی کے آدمی کو بھی، پہاڑ کے چرواہے کو بھی۔ مگر تبصرہ بازمڈل کلاسی دانشور نے اس معلوم بات کو اِن الیکشنوں میں ایسے بھلا دیا گویا ڈاکٹر مالک فضل الرحمن کا اتحاد کوئی انہونی بات ہو۔ یا الیکشن میں سارے امیدواروں کا امیر طبقہ سے تعلق کوئی حیرانی کی بات ہو۔
ہمارے بورژوا دانشور اپنی سیاست نہیں رکھتے۔ وہ صرف تبصرے کرتے ہیں۔ نواز شریف آئے بھی نا خوش، جائے بھی ناراض۔ دلیل اُن کے پاس تھوک کے حساب سے موجود ہوتی ہیں۔ یہ بے عمل اور لفاظ دانشور“”بے نظریہ“سیاست میں نظریہ ڈھونڈتا ہے،”بے اصول“کپٹلزم میں زریں اصول تلاش کرتا ہے، ”بے اخلاق“ معاشی سیاسی نظام میں اعلیٰ اخلاقیات دیکھنے کے دوربین فٹ کیے رکھتا ہے۔ وہ انہی باتوں پہ مضامین لکھتا ہے، کالم دے مارتا ہے، فیس بک بھر دیتا ہے۔ بورژوا دانشور بغیر ہاتھ پیر ہلائے، بغیر تنظیم و جہد کیے اور بغیر طبقاتی نظام کے تجزیے کے‘ عقلِ کل بننا چاہتا ہے۔ ساری زندگی ایک سیاسی ورکر نہ بن کر بھی وہ چے گویرا بننا چاہتا ہے۔
مگر صرف چاہتا ہے کرتاکچھ نہیں ہے۔ اس لیے بے بسی میں بس کڑھتا رہتا ہے۔ چغلی کرتا رہتا ہے۔ چونکہ ثابت قدمی اور استقلال ہوتا نہیں۔ چونکہ تنظیم اور ڈسپلین کی کوئی لگام ہوتی نہیں لہٰذا وہ ہمہ وقت اور ہر طرف سے اپنی”زخمی انا“ کو بچانے کی مصنوعی کوششیں کرتا رہتا ہے۔”انا“ جو ”آئی ایم“ کی طرف لے جاتی ہے۔ مزید تنہائی کی طرف، مزید جھنجلاہٹ کی طرف، مزید سطحیت کی طرف۔
چنانچہ حالیہ انتخابات میں اس بات پہ اعتراض کرنا کہ فلاں اور فلاں اکٹھے ہوئے، یا کسی پارٹی نے کسی غریب کو ٹکٹ نہیں دیا بہت جزوی اور سطحی بات لگتی ہے۔ جب ساری الیکشنی پارٹیوں کا مشترک دیوتا”پیسہ“ ہو، مشترک مرشد سے اجازتوں، آشیر بادوں کے سر ٹیفکیٹ ہاتھ میں ہوں، اور نظریات کی بات نہ رہے تو اِس طرح کے تبصرے، اورمضامین پہ حیرت ہوتی ہے۔جب ”خریدنا“ واحد طریقہ ہے جیتنے کا‘ تو خالی جیب اور خالی پیٹ والے کسان اور چرواہا الیکشن پراسیس میں امیدواربننے کی خواہش وتمنا بھی کیسے کرسکتے ہیں؟
ترقی پذیر سرمایہ دارانہ ممالک کے طبقاتی سماج میں خالص الیکشن کہاں ہوں گے؟۔ دھاندلی سے پاک الیکشن کا وجود کہاں ممکن ہے؟ تقدیروں میں لکھ دیا گیا ہے کہ بہت عرصے تک ہم جیسے ترقی پذیر سرمایہ داری علاقوں میں جمہوریت خالص نہیں ہوسکتی، مکمل نہیں ہوسکتی اور وسیع نہیں ہوسکتی۔ بلکہ یہاں الیکشن بہت عرصے تک محدود، اپاہچ، جھوٹے اور منافقانہ ہی رہیں گے۔ اس لیے اصلی جمہوری لوگ صرف الیکشنوں کے پراسیس میں بہتری کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اِن ساری خامیوں کو اُس پورے نظام کا لازمی پیدائشی حصہ سمجھتے ہیں جسے طبقاتی نظام کہتے ہیں۔
امیر غریب کا نظام رہے گا تو اس کی یہ موروثی خرابیاں بھی رہیں گی۔”ووٹ کا تقدس“، دھاندلی سے پاک“ اور ”شفاف“ الیکشن، ”فرد کی آزادی“ یا ”آزادیِ محبت“والے نعرے مجرد نعرے نہیں ہیں۔ یہ سب باتیں اُس پیکیج کا حصہ ہیں جو کپٹلسٹ سماجی و معاشی نظام کے ساتھ جڑاہواہے۔ جس کی کوئی بھی بات نہ شفاف ہوتی ہے اور نہ دھاندلی سے پاک۔